اسلام آباد: (روزنامہ دنیا) وفاقی حکومت نے بجٹ پیش کر دیا ہے، عمران خان حکومت کا یہ نوسرپرائز بجٹ ہے، بزنس فرینڈلی بجٹ ہے، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگا اور نہ ہی کوئی ٹیکس بڑھایا گیا۔
میزبان پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ کے مطابق کسی شعبے کیلئے کوئی بری خبر نہیں، این آئی سی کی شرط میں بھی نرمی لائی گئی، صنعتی خام مال کی درآمدی ڈیوٹی میں کمی لائی گئی ہے، یہ ایک اچھی خبر ہے۔
وفاقی وزیر بیرسٹر حماد اظہر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ سال ٹیکس ہدف 5 ہزار 500 ارب رکھا تھا، وبا نہ آتی تو 4800 ارب کا ٹارگٹ پورا کرلینا تھا، آئندہ سال صورتحال بہتر ہو جائے گی، 280 ارب روپے کے ریفنڈز کا اجرا کیا، فروری کے بعد بھی ریفنڈز دیئے گئے، ریٹیل سیکٹرز سے زیادہ ٹیکسز آ رہے ہیں، ملکی درآمدات پر 5 سے 10 سال میں بڑے ٹیکس لگائے گئے، ہم نے کسٹم ڈیوٹی کو زیرو کیا، عوام دیکھیں کہ ہم بڑے فیصلے کریں گے۔
سابق وفاقی وزیر محصولات ہارون اختر خان نے کہا ہے کہ بجٹ میں کوئی ویژن نظر نہیں آیا، ٹائم تو ایکسٹرا آرڈی نری ہے یہ بجٹ آرڈی نری سے بھی کم ہے، بزنس میں جو جوش و خروش تھا وہ نہیں رہا، ہماری صنعتی پالیسی ابھی سامنے نہیں آئی،اس وقت بزنس مین غیر محفوظ ہے، سرمایہ لگانے کیلئے تیار نہیں، بجٹ کے بعد ڈر ہے کہ سرمایہ ملک سے نکل نہ جائے۔
پیٹرن انچیف اپٹما گوہر اعجاز نے کہا ہے کہ اس بجٹ میں ایکسپورٹ کے حوالے سے کچھ نہیں دیکھ رہا، ہم نے پانچ سال میں جو ٹیکسٹائل پالیسی بنائی تھی اس کا کوئی عمل دخل نظر نہیں آیا، ہمیں لگتا ہے ہمیں دوبارہ حقوق کی جنگ لڑنی پڑے گی۔
سابق صدر کراچی چیمبر آف کامرس سراج قاسم تیلی نے کہا مجھے اس بجٹ سے جھٹکا لگا ہے، بجٹ سے لگتا ہے کورونا ختم ہوگیا، نیا ٹیکس نہیں لگایا، پرانا ٹیکس بھی نیا ہی ہے، جسے واپس نہیں لیا گیا، 900 ارب روپے کا ٹیکس موجود ہے، یہ بجٹ نہیں چلے گا، اس پر نظر ثانی کرنی پڑے گی، اگلے تین چار ماہ میں کافی ساری انڈسٹریز بند ہونے کا خدشہ ہے۔
سلیمان مہدی نے کہا ہے کہ حکومت نے ایف بی آر کے ٹیکس بڑھائے ہیں، سیلز ٹیکس 1400 سے 1900 ارب روپے ہو جائے گا، حکومت کو نئے سیکٹر کی طرف جانا چاہئے تھا، زراعت پر توجہ دینی چاہئے تھی، یہاں سے چار سو سے پانچ سو ارب روپے اکٹھے ہوسکتے تھے۔