لاہور: (تجزیہ: سلمان غنی) وزیراعظم عمران خان کے قومی اسمبلی سے خطاب کو اس حوالے سے اہم اور وقت کی ضرورت قرار دیا جا سکتا ہے کہ طویل عرصہ کے بعد ان کا یہ خطاب تفصیلی تھا۔ ان کے خطاب کو پر امن ماحول میں ایوان میں موجود سب اراکین نے سنا۔ ملک کو در پیش اہم ایشوز خصوصاً ملکی معیشت، ترقی کے عمل، کورونا کی صورتحال، لاک ڈاؤن، خارجہ پالیسی، کشمیر ایشو اور احتسابی عمل پر انہوں نے کھل کر اپنے نکتہ نظر کا اظہار کیا۔
دوسری جانبوزیراعظم عمران خان کی کورونا کے حوالے سے روز مرہ بنیادوں پر بریفنگ میں بہت سے نکات ایسے اٹھے جن سے کنفیوژن طاری ہوئی اور اپوزیشن نے اس کا فائدہ اٹھایا۔ اسی طرح اگر اب تک کی حکومتی کارکردگی پر گہری نظر ڈالی جائے تو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ جو توقعات پی ٹی آئی کی حکومت سے تھیں، وہ پوری نہیں ہوئیں خصوصاً معیشت کی بحالی، ترقی کا عمل، عوامی مسائل کا حل اور قرضوں سے نجات کے حوالے سے حکومت کا کوئی کیس نہیں، لوگوں کے مسائل بڑھے ہیں، خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں کمی کی بات بھی کی یقینا یہ اخراجات کم ہیں لیکن اگر ملکی معیشت کو 55 ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے تو پھر چند لاکھ ڈالرز بچانے کا کیا فائدہ۔ شرح نمو تو زمین بوس ہوتی نظر آ رہی ہے۔
معیشت ملک کا سب سے اہم مسئلہ ہے اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ اکیلی حکومت اس ایشو پر ڈیلیور نہیں کر پائے گی اس ایشو پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی اس تجویز کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے کہ معیشت کے ایشو پر بھی مشاورت کے بعد قومی لائحہ عمل کا تعین ہونا چاہیے۔ جہاں تک وزیراعظم عمران خان کی جانب سے خارجہ پالیسی کے حوالے سے بڑی کامیابی کا دعویٰ کیا گیا ہے تو اسے افغانستان کے حوالے سے تو کسی حد تک مانا جا سکتا ہے لیکن کشمیر جیسے سلگتے ایشو پر بات، بیانات اور اعلانات سے آگے نہیں بڑھی اور کشمیر پر سفیر کے عزم کا اظہار کرنے والے وزیراعظم کے دور میں کوئی دن ایسا نہیں جا رہا کہ کشمیر میں قیامت صغریٰ برپا نہ ہوتی ہو۔
ٹڈی دل کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا یہ اعلان کہ اس مسئلہ پر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے، خوش آئند ہے اور اس حوالے سے قطعی طور پر سستی کا مظاہرہ نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ آج اگر پاکستان کسی قسم کی فاقہ کشی سے بچا ہوا ہے تو اس کی بڑی وجہ ہمارا زرعی ملک ہونا ہے اور زراعت کے حوالے سے ہم کسی نقصان کے متحمل نہیں ہو سکتے۔