کراچی: (دنیا نیوز) پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ناقابل اعتماد ہے۔ ہم ن لیگ کو ساتھ ملا کر طاقتور بناتے ہیں اور وہ ڈیل کر لیتے ہیں۔ اب پھر ن لیگ ڈیل کر کے تحریک انصاف کی بی ٹیم بن گئی ہے۔
پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (سی ای سی) کے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی، سی ای سی نے اے پی سی کو تاخیر کا شکار کرنے کا ذمہ دار نون لیگ کو قرار دے دیا۔ اجلاس کے دوران شریک چیئر مین آصف علی زرداری نے ن لیگ کو ناقابل اعتماد قرار دیدیا۔ آصف زرداری نے ن لیگ پر دیگر قائدین کی تنقید کی تائید کر دی۔
ذرائع کے مطابق آصف علی زرداری نے پاکستان مسلم لیگ ن کو ناقابل اعتماد قرار دیکر خود اے پی سی بلانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ قائدین کی تنقید کے بعد سی ای سی نے پیپلز پارٹی کی میزبانی میں اے پی سی کے انعقاد کی منظوری دے دی۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کی اے پی سی میں ن لیگ کو بطور اپوزیشن جماعت مدعو کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ پیپلز پارٹی خود اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد اے پی سی کی تاریخ طے کرے گی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سی ای سی اجلاس کے دوران فیصلہ کیا گیا کہ ن لیگ اے پی سی میں آئے تو ویلکم، نہ آئے تو بھی اے پی سی ہوگی، پیپلز پارٹی کی چاروں صوبوں میں ازسر نو تنظیم سازی کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس کے دوران سابق صدر کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ ن نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ ناقابل اعتماد ہے۔ ہم نون لیگ کو ساتھ ملا کی طاقتور بناتے ہیں اور وہ ڈیل کر لیتے ہیں۔ اب پھر ن لیگ ڈیل کر کے تحریک انصاف کی بی ٹیم بن گئی ہے۔
اس سے قبل پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کا اجلاس بلاول ہاوَس کراچی میں ہوا، جس کی صدارت پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری نے مشترکہ طور کی۔
بلاول بھٹو زرداری پارٹی کے دیگر رہنماوَں کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ سابق صدر آصف علی زرداری نے بذریعہ ویڈیو لنک اجلاس میں حصہ لیا۔
سید قائم علی شاہ، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، میاں رضا ربانی، لطیف کھوسہ، شیری رحمن، سید نوید قمر، نفیسہ شاہ ہمایوں خان، شازیہ مری سمیت و دیگر نے شرکت کی۔
اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے رضا ربانی کا کہنا تھا کہ اجلاس 6 نکاتی ایجنڈا پر مبنی تھا، جن میں گلگت بلتستان کے انتخابات، پنجاب کی سیاسی صورتحال و تنظیمی معاملات، ملک میں حالیہ قانون سازی کے معاملات، کراچی کی صورتحال بالخصوص اٹارنی جنرل کے بیان کی روشنی میں ممکنہ صورتحال، نیب اور ہیومن رائیٹس واچ کی رپورٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر صورتحال کے ساتھ ساتھ 17 اگست کو سابق صدر آصف علی زرداری کی نیب طلبی سے منسلک معاملات اور پارٹی کی مجموعی صورتحال شامل تھی۔
انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات تین ماہ کے لیئے ملتوی ہوگئے ہیں، جبکہ اجلاس میں انتخابات کی تیاریوں اور امیدواروں کو ٹکٹس دینے کے معاملات پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں سید نوید قمر نے ایف اے ٹی ایف کے سلسلے میں ہونے والی حالیہ قانون سازی پر تفصیلی بریفنگ دی۔
سینیٹر رضا ربانی کا کہنا تھا کہ حکومت نے جان بوجھ کر ایف اے ٹی ایف سے منسلک بلز کو مقررہ ڈیڈلائین کی آخری گھڑیوں میں پیش کیا، تاکہ ان پر تفصیلی جائزہ نہ لیا جا سکے۔ موجودہ حکومت نے اس اقدام کے ذریعے ایک بار پھر پارلیمان کو ربڑ اسٹیمپ بنانے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن کی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی نے محدود وقت کے باوجود یہ یقینی بنایا کہ عام شہریوں کے آئینی حقوق متاثر نہ ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے بلز میں ایسی شقیں شامل کی تھیں، جن سے عام شہریوں کے حقوق سلب کئے جاتے اور وہ ریاست کے خوف میں مبتلا رہتے۔ اپوزیشن اور خاص طور پر پیپلز پارٹی نے تین ایسے قونین ہیں، جن پر پوزیشن لی ہے۔ ان قوانین میں سے دہشتگردی کے متعلق قانون ایسا ہے کہ اگر وہ منظور ہوا تو اس کی زد میں ہر شہری آئے گا، کیونکہ اس میں دہشتگردی کی جو وصف بیان کی گئی ہے وہ بہت وسیع ہے۔ یہ قانون فقط کالا قانون نہیں ہے، بلکہ “شاہ کالا قانون” ہے۔
انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری کو اس وقت نیب کی جانبب سے طلب کرنی کی ضرورت نہیں تھی وہ ماضی میں پیش ہوتے رہے ہیں، اور اگر ضروری ہوا تو پھر ہوں گے۔ پیپلز پارٹی اور اس کی ذیلی تنظیمیں چاہتی ہیں کہ پارٹی کارکنان نیب آفس کے آگے پیش ہوں۔
رضا ربانی کاکہنا تھا کہ اجلاس کے دوران آصف علی زرداری نے ہدایت کی کہ کارکنان عدالت میں جمع نہ ہوں، پہلے بھی نیب مقدمات کا سامنا کیا ہے، اب بھی کروں گا۔ پارٹی شکر اور آٹے کے بحران جیسے مسائل پر احتجاج کرے۔
سینیٹ کے سابق چیئر مین کا کہنا تھا کہ اجلاس کے دوران سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل کے کراچی کے متعلق بیان کا جائزہ لیا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جس دن سے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بنی ہے، تب سے پی ٹی آئی کبھی گورنر راج کی بات کرتی ہے تو کبھی کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی بات کرتی ہے۔ کراچی کا ریونیو اسلام آباد استعمال کر سکے یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا، کیونکہ کراچی سندھ کا حصہ ہے، ہمیشہ رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی آئین میں موجود وفاقی تصور کو تسلیم نہیں کرتی۔ کراچی کو وفاق کے ماتحت بنانا سینٹرلائیزیشن کرنے کے مترادف ہے۔ پی ٹی آٸی پاکستان کو 1962 والے آئیں کی طرف طرف لے جانا چاہتی ہے۔ 1962 کے آئین میں کابینہ پارلمان کو جوابدہ نہیں تھی۔ کراچی کو سندھ سے الگ کرنے کی سازش پرانی ہے۔ کراچی کے ریونیو کو اسلام آباد استعمال کرنا چاہتا ہے سندھ کے عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ جہاں غیر آٸینی کام ہو اس پر وکیل کی ذمہ داری ہے احتجاج کرے۔ وکلاء 17 تاریخ کو پیش ہونگے مقدمے کا دفاع کریں گے ۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے خلاف بھی ریفرنس ہیں جسکا ان کے پاس کوئی جواب نہیں، نیب بلاتا ہے تو وہ کہتے ہیں مجھے کچھ پتہ نہیں۔