تحریک انصاف کے معاشی ترقی کے دعوے اور حقیقت

Published On 17 August,2020 11:54 pm

لاہور: (طارق حبیب) تحریک انصاف کی دو سالہ دور حکومت میں ڈالر کی قدر، پیٹرول ودیگر اجناس کی قیمتوں، مہنگائی و بیروزگاری کی شرح اور ملکی قرضوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔

حکومت نے رضا باقر کو گورنر سٹیٹ بینک مقرر کیا، جنہوں نے آتے ساتھ ہی پالیسی ریٹ 12.25 فیصد مقرر کر دیا۔ جولائی 2019ء کو جب پالیسی ریٹ میں نظر ثانی کرکے 13.25 مقرر کی گیا تو ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔

پی ٹی آئی حکومت کے پہلے مالی سال میں صنعتی شعبہ میں نمو منفی 2.27 فیصد ریکارڈ ہوئی جبکہ سال 2020ء میں یہ شرح منفی 2.6 فیصد رہی۔ صنعتی شعبے میں شدید گراوٹ کے باعث تقریباً 2 کروڑ افراد بیروزگار ہوئے۔

تحریک انصاف نے حکومت میں آنے سے پہلے معاشی ڈھانچے کی تشکیل نو اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کے حوالے سے بلند و بانگ دعوے تو کیے، مگر حکومت میں آنے کے بعدمعیشت سے متعلق حکومتی منصوبہ بندی کمزور رہی جس کے باعث پاکستان کی معیشت کا سست روی کی جانب سفر شروع ہوا۔

2018ء میں پاکستان کے جی ڈی پی کی گروتھ 5.53 فیصد تھی اور اسے ابھرتی ہوئی معیشت کا درجہ حاصل تھا۔ تاہم پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد سال 2019ء میں جی ڈی پی کی شرح 1.91 فیصد رہی اور موجودہ سال میں جی ڈی پی منفی 0.38 پر آ پہنچی۔

پاکستانی معیشت میں آخری دفعہ منفی گروتھ مالی سال 52-1951ء میں دیکھی گئی تھی۔ 1971ء کا بحران جس میں بنگلا دیش پاکستان سے الگ ہو گیا، تب بھی پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ 1.23 فیصد تھی۔

تحریک انصاف کی دو سالہ دور حکومت میں ڈالر کی قدر، پیٹرول ودیگر اجناس کی قیمتوں، مہنگائی وبیروزگاری کی شرح اور ملکی قرضوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنے منشور میں جو معاشی اہداف طے کیے تھے،ا ن پر عمل درآمد کی تفصیل درجہ ذیل ہے۔

پاکستان کو کاروبار دوست ملک میں بدلنا

تحریک انصاف کے منشوری نکات میں سے ایک پاکستان کو عالمی کاروبار کی درجہ بندی میں 147ویں سے 100 ویں نمبر پر لانا شامل تھا۔ اس سال پاکستان 28 ویںدرجے بہتری کے ساتھ 108ویں نمبر پر آ گیا ہے۔ تاہم، توانائی شعبے میں درپیش بحران کاروبار دوست ماحول تشکیل دینے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کی دعوت دی جاتی رہی اور دعوے کیے جاتے رہے کہ اربوں کی ریل پیل ہو جائے گی۔ مگر بیرون ملک ترسیلات کے اعدادوشمار میں کوئی واضح فرق نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی بڑی سرمایہ کاری دیکھنے میں نظر آئی۔ اسٹاک ایکسچینج اور سٹیٹ بینک کے اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان سے اپنا سرمایہ نکال رہے ہیں۔

سٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ/شرح سود

جولائی 2018 میں تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے اسٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ 7.5 فیصد تھی۔ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آتے ساتھ ہی اکتوبر 2018 میں پالیسی ریٹ کو بڑھا کر 8.5 کر دیا گیا، جو بعد میں اپریل2019 تک 10.75 تک جا پہنچا۔ مئی 2019 میں حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے قرض لینے کا معاہدہ طے کرنے کے دوران حکومت نے رضا باقر کو گورنر اسٹیٹ بینک مقررکیا، جنہوں نے آتے ساتھ ہی پالیسی ریٹ 12.25 فیصد مقرر کر دیا۔ جولائی 2019 کو جب پالیسی ریٹ میں نظر ثانی کر کے 13.25 مقرر کی گیا تو ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باعث جنوری 2020 میں مہنگائی کی شرح 14.6 فیصد ریکارڈ ہوئی۔عالمی وباءکورونا کے آنے کے بعد معاشی سست روی آئی۔ اس سب کے پیش نظر اسٹیٹ بینک نے مارکیٹ میں روانی رکھنے کیلئے پچھلے دو ماہ میں 625 بیسس پوائنٹ کمی کے ساتھ مانیٹری پالیسی ریٹ جون 2020 میں 7 فیصد کر دیا ،جو گزشتہ سال جولائی 2019 سے 13.25 فیصد پر تھا۔

افراط زر

پاکستان میں بڑھتی افراطِ زر اور معاشی بدحالی کی وجہ سے ایک عام آدمی کی زندگی دن بدن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔اگست 2018 میں تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو افراط زر کی شرح 6.2 فیصد تھی، جو اگست 2019 میں بڑھ کر 10.5 فیصد تک جا پہنچی۔ جنوری 2020 میں افراط زر کی شرح ریکارڈ 14.6 فیصد پر رہی۔ اس دوران اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بےجا اضافہ دیکھنے کو ملا۔ جبکہ گزشتہ ماہ افراط زر 9.3 فیصد رہی۔

معاشی شعبوں میں تحریک انصاف کی کارکردگی

صنعتی شعبہ

صنعتی شعبہ جو پاکستان کی معیشت میں 19 فیصد حصہ رکھتا ہے، تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے 4.61 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہا تھا۔پی ٹی آئی حکومت کے پہلے مالی سال میں صنعتی شعبہ میں نمو منفی 2.27 فیصد ریکارڈ ہوئی، جبکہ سال 2020 میں یہ شرح منفی 2.6 فیصد رہی۔صنعتی شعبے میں شدید گراوٹ کے باعث تقریباً 2 کروڑ افراد بیروزگار ہوئے۔موجودہ حکومت میں صنعتی شعبے میں سب سے زیادہ زبوںحالی کا شکار آٹو انڈسٹری ہوئی۔ حکومت نے صنعتی شعبے کو سہارا دینے کیلئے لانگ ٹرم ٹریڈ فنانسنگ (LTFF) کو 5 فیصد اور ایکسپورٹ فنانس اسکیم(EFS) کو 3 فیصد کے سبسیڈائزڈ ریٹ پر قرضے فراہم کیے۔اس ضمن میں LTFF کی مد میں مالی سال 2020 میں جولائی تا اپریل تک 36.99 ارب روپے دیئے گئے جوکہ گزشتہ برس 33.52 ارب تھے۔ اسی طرح EFS کی مد میں مالی سال 2020 میں جولائی تا اپریل تک 109.186 ارب دیئے گئے جو گزشتہ برس 84.03 ارب تھے۔ساتھ ہی ای سی سی (ECC) نے سمال میڈیم انٹرپرائسز(SMEs ) کیلئے 50.7 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری دے دی ہے۔

زرعی شعبہ

ملکی معیشت میں زرعی شعبے کا نمایاں کردار ہے اوریہ پاکستان کی جی ڈی پی میں 19.31 فیصد حصہ رکھتی ہے۔ سال 18-2017 میں زرعی شعبہ میں ترقی کی شرح 4 فیصد تھی جوکہ مالی سال 2005-2004 کے بعد کی بلند ترین شرح تھی۔ پی ٹی آئی کے برسراقتدار آنے کے بعد رواں سال زرعی شعبہ میں ترقی کی شرح 2.67 فیصد رہی جبکہ گزشتہ سال 2019 میں 0.58 تھی۔ اس کے ساتھ ملک میں پانی کی قلت کے ساتھ زیر کاشت رقبہ کم ہونا شروع ہو گیا ہے جبکہ کھاد کی قیمتوں میں اضافے کے باعث کسانوں نے کھاد کا استعمال کم کر دیا ہے،جسکی وجہ سے پاکستان میں اہم فصلوں کی پیداوار میں کمی ہونا شروع ہو گئی ہے۔ساتھ ہی،رواں سال آنے والے ٹڈی دل کے حملے سے بھی ملکی کاشت کو کم از کم 800 ارب کا نقصان ہو ا ہے۔

خدمات کا شعبہ

پاکستان کی معیشت میں خدمات کے شعبے کا حصہ 62 فیصد ہے۔ تحریک انصاف کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے یہ شعبہ 6.35 کی شرح سے ترقی کر رہا تھا۔ معاشی سست روی نے خدمات کے شعبے کو 2019 میں 3.75 فیصد جبکہ رواں سال منفی 0.59 فیصد پر لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان میں خدمات کے شعبے میں پہلی بار منفی شرح کا سہرا بھی پی ٹی آئی کے سر جاتا ہے۔ ساتھ ہی کورونا وباءکے باعث لگنے والے لاک ڈاو ¿ن نے معاشی سست روی میں اضافہ کیا جس کا سیدھا اثر بیروزگاری میں اضافے کی صورت میں سامنے آیا۔ خدمات کے شعبے میں منفی شرح پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملی ہے۔صنعتی شعبے میں ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ منفی 3.42 فیصد جبکہ مواصلات میں منفی 7.13 فیصد گراوٹ دیکھنے کو ملی۔

فی کس آمدن

09-2008میں پاکستان میں فی کس آمدن1026 ڈالر تھی جس میں سالانہ بتدریج اضافہ ہوتا گیااور گزشتہ حکومت کے آخری مالی سال میں فی کس آمدن 1652 ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ اس کے بعد کم ہونا شروع ہوئی۔ معاشی تنزلی اور پیسے کی قدر میں تیزی سے گراوٹ فی کس آمدن میں کمی کی وجہ بنی۔تحریک انصاف دور حکومت کے پہلے سال میں فی کس آمدن کم ہوکر 1455 ڈالر ہوگئی جبکہ مالی سال20-2019 میں مزید کم ہو کر1355 ڈالر پر پہنچ گئی۔اگر ہمسایہ ممالک سے موازنہ کیا جائے تو مالی سال 09-2008 بھارت کی فی کس آمدن 1049 ڈالر جبکہ بنگلہ دیش کی 728 ڈالر تھی۔ مالی سال 09-2008کے مقابلے میں 20-2019میں پاکستان فی کس آمدن 329 ڈالر بڑھی ہے اور بھارت کی فی کس آمدن 1123 ڈالر جبکہ بنگلہ دیش کی1339 ڈالر بڑھی ہے۔مالی سال 09 -2008 میں بنگلہ دیش کی فی کس آمدن پاکستان سے 298 ڈالر کم تھی جبکہ مالی سال 20-2019 میں پاکستان سے 712 ڈالر زیادہ ہے۔

چھوٹے اور درمیانے درجے کے پیداواری شعبوں کی ترقی

پیداوار،برآمدات اور روزگار کے معاملات میں نمایاں شراکت داری کی وجہ سے مائیکرو،سمال اور میڈیم انٹر پرائزز (MSMEs) ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خاص طور پر ، چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری ادارے پاکستان کی کاروباری معیشت میں مجموعی طور پر 90 فیصد اور ملک کی سالانہ جی ڈی پی میں 40 فیصد حصہ رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی غیر زرعی افرادی قوت کا80 فیصد چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار سے منسلک ہے۔ملک کی معاشی نمو میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود کاروباری اداروں کو بینکوں اور مالیاتی اداروں کی جانب سے فراہم کیے جانے والے قرضوں میں صرف 6 فیصد قرضے چھوٹے اور درمیانے کاروباری اداروں کو فراہم کیے جاتے ہیں۔ملک میں معاشی بہتری لانے کیلئے ضروری ہے کہ برآمدات کو فروغ دیا جائے، جس کیلئے ایس ایم ای سیکٹر پر توجہ دینا ضروری ہے تاکہ پیداواری صنعت میں بہتری لا کر عالمی منڈی کا مقابلہ کیا جا سکے۔ پی ٹی آئی حکومت نے تاجروں کے مطالبے پر 2007 کی سمال میڈیم انٹرپرئز پالیسی کو تبدیل کرنے کیلئے سمال میڈیم انٹرپرائز پالیسی 2020 کا مسودہ جاری کیا، تاہم حکومت اس کو ابھی تک عملی جامع نہیں پہنا سکی۔ البتہ کورونا وباءکے باعث آنے والی معاشی سست روی میں تیزی لانے کیلئے اقتصادی رابطہ کمیٹی نے ”چھوٹا کاروبار و صنعت امدادی پیکیج“ کا اعلان کیا۔اس اسکیم میں سمال میڈیم انٹرپرائزز کیلئے 50 ارب روپے مختص کیے گئے، جس کے تحت بجلی کے بلوں پر چھوٹ دی گئی۔ملک میں کل ایس ایم ایز کا تخمینہ 52 لاکھ ہے جس میں سے 35 لاکھ سے زیادہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔

بجٹ خسارہ

گزشتہ حکومت کے آخری مالی سال 18-2017 میں بجٹ خسارہ 2 ہزار 260 ارب روپے تھاجو جی ڈی پی کا 6.6 فیصد تھا۔تحریک انصاف کے دور حکومت میں گذشتہ مالی سال20-2019 بجٹ خسارہ 3 ہزار 376 ارب روپے رہا،جبکہ مالی سال 19-2018 میں بجٹ خسارہ 3 ہزار 444 ارب روپے تھا۔مالی سال 20-2019 میں بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 8.1 فیصد تھا،جبکہ مالی سال 19-2018 میں یہ خسارہ 8.9 فیصد پر تھا،جو پچھلی چار دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے۔یوں ،یہ پی ٹی آئی کا مسلسل دوسرا سال ہے جب ملک میں بجٹ خسارہ 8 فیصد سے زیادہ رہا، جبکہ حکومت نے گذشتہ مالی سال اس کو 7.1 فیصد تک رکھنے کا دعویٰ کیا تھا۔حکومت نے بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے مقامی اور بیرونی قرضوں کا سہارا لیا۔ وزرات خزانہ کے مطابق گذشتہ مالی سال 2 ہزار 480 ارب روپے کے مقامی اور 896ارب روپے کے بیرونی قرضے حاصل کیے گئے۔جبکہ مالی سال 19-2018 میں 3 ہزار 28 ارب روپے کے مقامی اور 417 ارب روپے کے بیرونی قرضے لئے گئے تھے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ

تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل پاکستان کا کرنٹ اکاو ¿ٹ خسارہ مالی سال 18-2017 میں 19.87 ارب ڈالر ریکارڈ ہوا، جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھا۔ تاہم، اقتدار میں آنے کے بعد پی ٹی آئی نے اس پر قابو پانے کیلئے اقدامات کیے، جس کے سبب مالی سال 19-2018 میں کرنٹ اکاؤٹ خسارہ کم ہو کر 13.50 ارب ڈالر تک پہنچا،جبکہ گذشتہ مالی سال 20-2019 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں مزید کمی کے ساتھ 2.97 ارب ڈالر پر آ پہنچا۔یوں، پی ٹی آئی نے اپنے دو سالہ دورِ اقدار میں تجارتی خسارے میں 85 فیصد کمی کی ہے۔اس کے علاوہ ،کرنٹ اکانٹ خسارہ جو دو سال قبل جی ڈی پی کا 6.1 فیصد تھا اب مالی سال 20-2019 میں 1.1 پر پہنچ گیا ہے۔

پاکستان اسٹاک ایکسچینج 100 انڈیکس

تحریک انصاف کی حکومت شروع ہونے سے پہلے اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس 446. 42کی سطح پر تھا جو بعد میں معاشی سست روی کے باعث گراوٹ کا شکار ہوا اور ٹھیک ایک سال بعد اگست 2019 میں 429 29 کی سطح پر پہنچ گیا۔ جنوری 2020 کے پہلے ہفتے میں مارکیٹ میں تیزی کے باعث انڈکس 200. 43 تک پہنچ گیا تھا لیکن عالمی وبا کورونا نے دنیا بھر کی معاشی سرگرمیوں کو منجمد کر دیا، جس کے سبب صرف دو ماہ کے بعد انڈیکس 28،100 کی سطح پر آ گیا۔ پی ٹی آئی حکومت کے لاک ڈاؤن کھولنے کے بعد سے مارکیٹ نے پھر سے رفتار پکڑی ہے اور اگست کے دوسرے ہفتے میں انڈکس 470. 40 کی سطح پر آ گیا ہے، جس میں مزید بہتری کی امید کی جارہی ہے۔

تجارتی خسارہ

تحریک انصاف نے جب حکومت سنبھالی تو اس وقت ملک کا تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر تھا۔ مالی سال 18-2017 میں پاکستان کی درآمدات 55 ارب ڈالر تھی جبکہ برآمدات 25 ارب ڈالر کے قریب تھی۔ پی ٹی آئی نے اپنی برآمدات بڑھانے کیلئے درآمدی اشیاء پر ٹیکس دیوٹی بڑھائی اور میڈ ان پاکستان کا نعرہ بھی لگایا۔ مالی سال 19-2018 میں تجارتی خسارہ کم ہو کر 27 ارب ڈالر پر آ گیا۔ مالی سال 19-2018ملک کی کل درآمدات 52 ارب ڈالر جبکہ برآمدات 24 ارب ڈالر کے قریب رہی۔گزشتہ مالی سال 20-2019 میں تجارتی خسارہ مزید کمی کے ساتھ 20 ارب ڈالر تک آ گیا جو کہ حکومت کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک سمجھی جاتی ہے۔ رواں سال درآمدات 42 ارب ڈالر جبکہ برآمدات 22 ارب ڈالر رہی۔ مالی سال 20-2019 میں تجارتی خسارے میں کمی کی ایک بڑی وجہ دنیا بھر میں معاشی سست روی اور ملکی درآمدات میں نمایاں کمی ہے۔ گزشتہ سال سے پاکستان میں ماہانہ درآمدات 4 ارب ڈالر سے کم رہی ہیں۔

برآمدات

تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستان کی برآمدات 24.7 ارب ڈالر تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے ایک سال بعد مالی سال 19-2018 میں برآمدات 500 ملین ڈالر کمی کے ساتھ 24.2 ارب ڈالر پر آ گئیں۔مالی سال 20-2019 میں تحریک انصاف حکومت کو دو سال مکمل ہونے کے بعد ملکی برآمدات مزید کم ہو کر 22.5 ارب ڈالر ہو گئیں۔ پی ٹی آئی حکومت کے منشور میں ملکی برآمدات میں اضافہ بھی شامل تھا، مگر گزشتہ دو سالوں میں 2 ارب ڈالر کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

درآمدات

تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستان کی درآمدات 55.6ارب ڈالر تھیں۔پی ٹی آئی نے حکومت میں آ کر ملکی درآمدی بل پر کمی لانے کیلئے ٹیکس اور ڈیوٹیز میں اضافہ کیا ،جس کے باعث ایک سال بعد مالی سال 19-2018 میں ملکی درآمدات 51.8 ارب ڈالر پر آگئیں۔مالی سال 20-2019 میں درآمدات میں مزید کمی ہوئی اور 42.4 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔یوں تحریک انصاف نے اپنی دو سالہ حکومت میں ملکی درآمدات میں 23 فیصد کی کمی کر کے 55.6 ارب ڈالر سے 42.4 ارب ڈالر کر دی ہے۔

ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر

تحریک انصاف کے اقتدار میں آنے سے پہلے مارکیٹ میں فی ڈالر 123 روپے کا دستیاب تھا۔پچھلے دو سال میں اس میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا۔ ایک سال بعد اگست 2019 میں ڈالر کی قیمت 160 روپے تک جاپہنچی ، جبکہ، رواں سال اگست میں فی ڈالر کی قیمت 168 روپے ریکارڈ ہوئی۔یوں، گزشتہ دو سالوں کے دوران ڈالر کی قدر میں 37 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ملکی زرمبادلہ کے ذخائر

اگست 2018 میں پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر 16.4 ارب ڈالر تھے۔ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے کے ایک سال بعد اگست 2019 میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر 15.6 ارب ڈالر رہ گئے تھے تاہم رواں سال اس میں نمایاں اضافہ ہوا اوراگست 2020 میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 19.5 ارب ڈالر تک پہنچے ہیں۔

ملکی ترسیلات

مالی سال 18-2017 میں پاکستان میں مجموعی طور پر 19.9 ارب ڈالر کی ترسیلات آئیں۔تحریک انصاف کے حکومت سنبھالنے کے ایک سال بعد مالی سال 19-2018 میں ترسیلات تقریباً دو ارب ڈالر اضافے کے ساتھ 21.8 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ جبکہ گزشتہ مالی سال 20-2019 میں ترسیلات 23.1 ارب ڈالر رہیں۔