لاہور: (دنیا نیوز) بھاری ٹیکسز کی وصولی کے باوجود جرائم پیشہ افراد کو نکیل ڈالنے کیلئے کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔ لاہور سیالکوٹ اور لاہور کراچی موٹروے پر سفر کرنا شہریوں کیلئے عذاب بن چکا ہے۔
لاہور سیالکوٹ موٹروے کو کھلے چھ ماہ گزر گئے مگر وہاں پولیس، چیک پوسٹ اور نہ ہی کوئی سہولت موجود ہے، اس سے جرائم بڑھنے لگے ہیں۔
آئی جی موٹروے کلیم امام سے جب اس بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے بتایا کہ لاہور سیالکوٹ موٹروے ان کی حدود میں ہی نہیں آتی۔ لاہور سیالکوٹ موٹروے پر تو پولیس تعینات ہی نہیں ہو سکی مگر اس سے پہلے یکم اپریل 2019ء کو لاہور عبدالحکیم موٹروے کو ٹریفک کیلئے کھولا گیا مگر وہاں بھی عوام کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔
لاہور کراچی موٹروے کا سنگ بنیاد سابق وزیراعظم نواز شریف نے مارچ 2015ء میں رکھا تھا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو موٹروے تیار ہی ملی۔ مارچ 2019ء میں گورنر پنجاب نے اس کا افتتاح کیا تھا۔
اس موٹروے پر قیام وطیام کی سہولت ہے نہ پٹرول پمپ، ورکشاپ ہے نہ ٹائر پنکچر کا انتظام جبکہ واش روم سمیت دوسری کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ 230 کلومیٹر موٹروے پر 148.6 ارب روپے لگائے گئے لیکن موٹروے پر صرف ایک ہی پٹرول پمپ ہے۔
گاڑی میں کسی خرابی کی صورت میں دور دور تک کوئی مکینک نہیں ملتا۔
لاہور سے کراچی موٹروے کا دوسرا حصہ ملتان تا سکھر ہے، وہاں صورتحال اس سے بھی ابتر ہے۔ شہریوں کو پٹرول کی ضرورت پڑے تو انہیں انٹر چینج سے باہر نکل کر شہر سے پٹرول ڈلوا کر دوبارہ موٹروے پر آنا پڑتا ہے۔
سکھر ملتان ایم فائیو موٹر وے 393 کلومیٹر طویل ہے۔ اس پر 2 ارب 89 کروڑ ڈالر کی لاگت آئی۔ قیام وطعام کیلئے مختلف جگہیں تو مختص کر دی گئیں لیکن وہاں ویرانی ہی ویرانی ہے۔
جی ایم این ایچ اے کیپٹن ریٹائرڈ مشتاق نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ضلعی انتظامیہ کی رکاوٹوں کی وجہ سے پٹرول پمپس ایکٹو نہیں ہو سکے۔
لاہور سے اسلام آباد موٹروے پر دونوں اطراف 10 کے قریب قیام وطعام ہیں جو کہ تقریباً ہر 60 سے 80 کلومیٹر کے بعد آتے ہیں۔ ہر سروس ایریا میں پیٹرول پمپس کی سہولت بھی موجود ہے۔
مگر لاہور سے ملتان اور ملتان سے سکھر موٹرویز پر سہولیات کب میسر ہوں گی؟ کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح سہولیات کا فقدان رہا تو ڈکیتی اور زیادتی کے واقعات بڑھتے رہیں گے۔ پولیس حدود کا تعین اور سیاسی رہنما ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہیں گے۔