لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے موٹروے پر خاتون سے زیادتی کیس کے ملزمان کو فوری گرفتار کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے آئی جی پنجاب سے تمام شاہراہوں پر سیکیورٹی کا ریکارڈ طلب کرلیا۔ چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا سینئر افسران روزانہ 2 گھنٹے پٹرولنگ کریں۔
لاہور ہائیکورٹ میں موٹروے پر خاتون زیادتی کیس کی سماعت ہوئی۔ سی سی پی او لاہور عمر شیخ عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا خاتون سے ملزمان کا حلیہ پوچھا اور اپنا کام شروع کر دیا، ڈی جی نادرا سے رات کو بات کی اور فوری ریکارڈ نکلوایا، اس حلیے کے 53 بندے پکڑ کر ڈی این اے کرائے، جیو فینسنگ کی، ملزم عابد کا ڈی این اے میچ کر گیا، عابد پہلے بھی ماں بیٹی سے زیادتی کر چکا ہے، عابد کے ملزم وقار کیساتھ تعلقات تھے، لوکیشن بھی وہیں کی آ رہی تھی، پولیس اب ایک اور ملزم کے پیچھے ہے، جلد پکڑ لیں گے۔
عدالت نے کہا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرے، ایک بچی اس اعتماد کیساتھ نکلی کہ موٹروے پر محفوظ ہے، خاتون اور بچے کس قرب میں رہیں گے، آپ کو اندازہ ہے ؟ سی سی پی او نے کہا خدا کی قسم پولیس کو سزائیں دیں تا کہ ٹھیک ہوں۔ جس پر عدالت نے کہا اب وہ وقت گیا کہ کسی کو معافی ملے گی، سب کو پکڑیں گے، آج آپ ہیں، کل کوئی اور ہوگا، ہم اسے ادارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا خاتون اور بچوں کی ساری زندگی متاثر ہوگی، آپ اداروں سے ٹکراؤ کی بات کر کے جان نہیں چھڑا سکتے، اب جو حالات بن گئے ہیں عدالتوں کو زیادہ اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔ سی سی پی او لاہور نے کہا یہ حالات عدالتیں ہی ٹھیک کرسکتی ہیں، اتنی اندھیر نگری نہیں، آپ گیارہویں صدی میں نہیں رہ رہے، پولیس افسران گھر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اور وائرلیس کر دیتے ہیں کہ ڈیوٹی پر ہیں، ملزمان کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیئے، ماورائے عدالت قتل نہیں ہونا چاہیئے۔
دوران سماعت عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سی سی پی او کے بیان پر پوری کابینہ کو معافی مانگنی چاہیئے تھی، کابینہ معافی مانگتی تو قوم کی بچیوں کو حوصلہ ہوتا، پنجاب حکومت کے وزرا سی سی پی او کو بچانے میں لگ گئے، لگتا ہے سی سی پی او لاہور وزرا کا افسر ہے، اتنا بڑا واقعہ ہوگیا لیکن حکومت کمیٹی کمیٹی کھیل رہی ہے، وزرا کے ایڈوائزر موقع پر جا کر تصاویر بنوا رہے ہیں، کیا تفتیش کرنا وزیر قانون کا کام ہے ؟ کیا وزیر قانون کو تفتیش کا تجربہ ہے ؟ وزیر قانون کس حیثیت سے کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں؟۔
لاہور ہائیکورٹ نے آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور سے 16 ستمبر تک رپورٹ طلب کرلی۔