اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکوٹ میں زیر سماعت العزیزیہ ریفرنس کیس سے متعلق عدالت نے وفاقی حکومت کو نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنیکی تعمیل کا حکم دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں محمد نواز شریف کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف سے پانچ صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔
عدالت نے فیصلہ میں کہا ہے کہ وفاقی حکومت برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے ذریعے نواز شریف کے وارنٹ کی تعمیل کرائے، سابق وزیراعظم کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست نمٹائی جاتی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیل پر میرٹ پر فیصلہ ہوگا۔ ان کی اپیلوں پر سماعت سے قبل نواز شریف کی حاضری یقینی بنانے کی کاروائی ہوگی۔
عدالت کی طرف سے مزید کہا گیا کہ قانون کے مطابق اپیلوں پر سماعت کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری ضروری ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے تھے۔
گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر سماعت کی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے 22 ستمبر تک ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا مختصر فیصلہ دیا۔
گزشتہ روز سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سابق وزیر اعظم کی درخواست سننے سے متعلق دلائل دیے۔
سماعت کے دوران خواجہ حارث نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مشرف کی عدم موجودگی پر سنگین غداری کیس کا ٹرائل چلایا اور فیصلہ دیا، ملزم کے پیش نہ ہونے کے جواز پر ٹرائل نہیں روکا جا سکتا۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ حارث کی بیان کی گئی عدالتیں نظیریں مختلف حالات کی ہیں یہاں معاملہ الگ ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ ہم نے نواز شریف کو سرنڈر کرنے کا کہا، ہمیں اب نوازشریف کی موجودہ حیثیت کا فیصلہ کرنا ہے۔
وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف واضح طور پر اپنی درخواست میں کہہ چکے ہیں وہ پاکستان آنا چاہتے ہیں جسے ہی ڈاکٹرز نے ان کو سفر کرنے کی اجازت دی وہ پاکستان واپس آجائیں گے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس کسی ہسپتال کے ڈاکٹر کی نہیں بلکہ ایک کنسلٹنٹ کی ہیں، یہ ایک کنسلٹنٹ کی رائے ہے جو کسی ہسپتال میں نہیں بیٹھا ہوا۔ ابھی تک کسی ہسپتال نے نہیں کہا کہ نوازشریف کو ہم اس لیے داخل نہیں کر رہے کہ کورونا کی وجہ سے ان کا علاج نہیں ہو سکتا، انہیں 8 ہفتوں کی ضمانت دی گئی لیکن اس دوران وہ کسی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے ، وہ اگر ہسپتال سے باہر لندن میں رہ سکتے ہیں تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ پاکستان میں میڈیکل بورڈ کی رپورٹس پر وفاقی حکومت خود شک کر رہی ہے، اس ساری صورتحال نے معاملہ الجھا دیا ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وفاقی حکومت کو دیکھنا ہے کہ نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس درست ہیں یا نہیں، برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشین سے چیک کروایا جا سکتا ہے، حکومتی میڈیکل بورڈ نے خود باہر جانے کی اجازت دی۔
نیب پراسیکیوٹر جہانزیب بھروانہ نے کہا کہ جس مقصد کے لیے ضمانت دی گئی اس سے استفادہ نہیں کیا گیا۔ عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔ العزیزیہ ریفرنس فیصلے پر اپیلوں کی مزید سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کر دی گئی تھی۔