پشاور: (دنیا نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لیے انتظامات نہ ہونے پر برہم ہوگئے، خیبر پختونخوا کے متعلقہ اداروں سے 4 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرلی۔
پشاورسپریم کورٹ رجسٹری میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی، چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الاحسن نے کیس کی سماعت کی۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کیلئے انتظامات پربرہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جولوگ کام نہیں کرتے انہیں فارغ کرکےنئے لوگ لے آئیں ،یہ اے سی کے کمرے میں بیٹھے ہوتے ہیں صرف خط لکھتے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ افسران کام کررہےہوتے توکلف والے کپڑوں میں نہ آتےجینزپہن کر آتے، خطوط پرکام ہونے کا زمانہ چلا گیا، خط لکھنا بابو کا کام ہے، یہاں بہت بری حالت ہے،ہرجگہ آلودگی ہے۔
ان کا کہنا تتھا کہ حکومتی رپورٹ میں غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کیاگیاہے، کوئی عملی اقدامات نظر نہیں آئے،کاغذی معاملات میں ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کہتے ہیں بلین ٹری لگائے لیکن ہمیں کوئی درخت نظرنہیں آیا، آپ کو پتہ نہیں کہ دنیا میں معاملات کیسے چل رہے ہیں، لاہور میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے اچھےاقدامات کئے گئے۔
جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ اگرکورونا نہ ہوتا توبھی آلودگی کی وجہ سے فیس ماسک لگاتے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپ ایس اوپیز جاری کرتے ہیں مگر عملدرآمد کیسے ہوگا ۔