اسلام آباد: (دنیا نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی صوبے اور محکمے نے شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں دی، وفاق اور صوبوں کے مابین کوئی طریقہ کار دکھائی نہیں دے رہا، سرکار پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آ رہا، صرف پانچ ہزار مریضوں پر کھربوں روپے لگ گئے۔
سپریم کورٹ میں کورونا وائرس ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران وفاق کی طرف سے بتایا گیا کہ حکومت زکوة فنڈ صوبوں کو دیتی ہے لیکن اسے مستحقین تک نہیں پہنچایا جاتا۔ زکوٰة فنڈ کا بڑا حصہ انتظامی اخراجات پر صرف ہو جاتا ہے۔
عدالت عظمیٰ نے اس موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل اور مفتی تقی عثمانی سے شرعی رائے طلب کرتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ بتایا جائے کہ زکوة اور بیت المال کے پیسے سے ادارے کی تنخواہیں دی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ کیا زکوة اور صدقے کی رقم سے ادارے کے دیگر اخراجات بھی چلائے جا سکتے ہیں یا نہیں؟
معاملہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس گلزا احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ مزارات کے پیسے سے افسران کیسے تنخواہ لے رہے ہیں؟ ڈی جی بیت المال بھی زکوة فنڈ سے تنخواہ لے رہے ہیں، کیا زکوة فنڈ سے تنخواہ دینا شرعی طور پر جائز ہے؟ کیا زکوة کے پیسے سے انتظامی اخراجات کرنا جائز ہے؟ کیا محکمہ زکوة کا بنایا گیا قانون شریعت سے متصادم نہیں؟ زکوة فنڈ کس کو مل رہے ہیں؟ یہ ایک معمہ ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کسی کام میں شفافیت نہیں، بیت المال کا بڑا حصہ انتظامی امور پر خرچ ہوتا ہے۔ بیت المال والے کسی کو فنڈ نہیں دیتے۔ سندھ حکومت ہو یا کسی صوبے کی، مسئلہ شفافیت کا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت کو بھی صرف یہ بتایا گیا کہ امداد دی گئی لیکن اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ زکوة کے پیسے سے نہ دفتری امور نہیں چلائے جا سکتے ہیں اور نہ ہی لوگوں کو جہاز پر سفر کروایا جا سکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ زکوة کا پیسہ کہاں خرچ ہو رہا ہے؟ زکوة کے حوالے سے جمع کرائی گئی رپورٹ میں کچھ نہیں بتایا گیا، بیت المال نے بھی کوئی جواب جمع نہیں کرایا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت پیسے بہت خرچ کر رہی ہے لیکن نظر کچھ نہیں آ رہا کہ ہو کیا رہا ہے۔ اگر ورلڈ بینک سے پیسہ آتا ہے اور سامان باہر سے منگوا لیا جاتا ہے تو پیسہ تو باہر ہی رہا، اس کا فائدہ کیا ہوا؟ سامان ملک میں کیوں نہیں بنایا جا رہا؟ کپڑے کی دکان کھولنے کے بغیر درزی کھولنے کا کیا فائدہ؟ درزی کو کپڑا اور دیگر چیزیں بھی چاہیے ہوتی ہیں، ایسے تو درزی ہاتھ ہر ہاتھ رکھ کر بیٹھا رہے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ایک موقع پر ریمارکس دیئے کہ رپورٹ کے مطابق وفاق نے 9 ارب سے زائد زکوة جمع کی لیکن مستحقین تک رقم کیسے جاتی ہے؟ اس کا کچھ نہیں بتایا گیا۔ وفاق حکومت کو زکوة فنڈ کا آڈٹ کروانا چاہیے۔ زکوة فنڈ کے آڈٹ سے صوبائی خود مختاری متاثر نہیں ہو گی۔
ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایا کہ کورونا پر سیاست نہیں کرنا چاہتے، اس لیے تصویریں نہیں بنا رہے۔ سندھ میں 569 ملین روپے 94 ہزار سے زائد افراد کو دیئے گئے۔ تمام رقم زکوة فنڈز سے مستحقین کو دی گئی۔ زکوة انہی افراد کو دی گئی جنہیں ہر سال دی جاتی ہے۔ سندھ میں فی کس چھ ہزار روپے زکوة دی گئی۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت نے ایک ارب کا راشن بانٹ دیا تو کسی کو علم کیوں نہیں ہوا؟ سندھ حکومت چھوٹا سے کام کرکے اخباروں میں تصویریں لگواتی ہے۔ سنا ہے سندھ میں زائد المعیاد آٹا اور چینی بانٹی گئی؟
اس پر ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ صبح چار سے سات بجے تک گھر گھر راشن تقسیم کیا جاتا ہے۔ زائد المعیاد اشیا کی تقسیم کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں، پتا نہیں ایسی باتیں کون پھیلاتا ہے۔ ہم نے رپورٹ میں بتایا ہے کہ تقسیم کی جانے والے اشیا یوٹیلٹی سٹورز سے خریدی گئی ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس موقع پر زکوة کی فنڈز کی رقوم کی ادائیگی میں شفافیت سے متعلق تمام صوبوں اور آئی سی ٹی سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے چاروں صوبوں اور وفاق سے آئندہ سے سماعت سے قبل کورونا وائرس پر پیشرفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے معاملے کی سماعت دو ہفتوں تک کے لیے ملتوی کر دی۔