لاہور: (دنیا الیکشن سیل) گلگت شہر کے اہم علاقوں پر مشتمل اس ضلع میں ایک لاکھ 18 ہزار 459 رجسٹرڈ ووٹرز حق رائے دہی استعمال کرینگے۔ ملکی سیاسی ماحول گرم ہونے کی وجہ سے بڑی سیاسی جماعتوں نے کسی نئے امیدوار کو آزمانے کا رسک لینے کے بجائے پرانے امیدواروں کو میدان میں اتارا ہے۔
پچانوے فیصد شرح خواندگی اور مذہبی اثر ورسوخ رکھنے والے اس حلقے سے ایک بھی خاتون امیدوار انتخابی عمل کا حصہ نہیں بنی ہے۔ انتخابی حلقہ گلگت 1 میں مرد ووٹرز کی تعداد 20 ہزار پچاس جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد پندرہ ہزار 790 ہے۔
اس حلقے میں تقریباً 60 فیصد ووٹ مذہبی بنیادوں پر، 30 فیصد سیاسی جماعتوں کے نام پر اور 10 فیصد ووٹ شخصی بنیادوں پر کاسٹ کیا جاتا ہے، پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے اس حلقے سے جعفر اللہ خان امیدوار ہیں جو گلگت بلتستان کے گزشتہ دو انتخابات میں بھی (ن) لیگ کے ٹکٹ پر ہی الیکشن لڑ چکے ہیں۔
2009ء کے انتخابات میں جعفر اللہ خان کو اس حلقے میں آزاد امیدوار سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ 2015ء کے انتخابات میں انہوں نے کامیابی حاصل کی اور گلگت بلتستان اسمبلی میں ڈپٹی سپیکر کے عہدے پر تعینات رہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے امجد حسین ایڈووکیٹ امیدوار ہیں جو گلگت سے پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر بھی ہیں۔ امجد حسین ایڈووکیٹ نے گزشتہ انتخابات میں حصہ لیا تھا تاہم انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امجد حسین ایڈووکیٹ پیپلز پارٹی کی جانب سے کونسل ممبر بھی رہ چکے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جوہر علی کو آنے والے انتخابات میں ٹکٹ دیا گیا ہے۔ اس سے قبل جوہر علی 2009ء اور 2015ء میں آزاد امیدوار کی حیثیت میں انتخابات میں کھڑے ہوئے تھے، مگر دونوں مرتبہ انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
رواں سال جوہر علی نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی جس کے بعد انھیں تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات 2020ء کیلئے ٹکٹ جاری کیا گیا ہے۔ آزاد امیدواروں میں شفیق الدین حلقے میں اثرورسوخ رکھتے ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ٹکٹ لینے کے خواہشمند تھے تاہم ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں۔
اس حلقے میں مذہبی اثر ورسوخ بہت زیادہ اور مذہبی ووٹ کسی بھی امیدوار کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ راہ حق پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے امیدوار حمایت اللہ خان اور ایک آزاد امیدوار مولانا عاطف عثمانی مذہبی حلقوں میں اثرورسوخ رکھتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق مذہبی جماعتوں کی جانب سے دونوں میں سے کسی ایک امیدوار کی حمایت کا فیصلہ کرنے کیلئے ریفرنڈم کرایا جائے گا جس کے بعد مذہبی جماعتیں مشترکہ طور پر ایک امیدوار کا اعلان کریں گی۔
اس طرح آزاد امیدوار مولانا سلطان رئیس سوشل ورکر ہیں اور انہوں نے حکومت کی جانب سے گندم پر سبسڈی دینے کے معاملے پر 41 روزہ دھرنا دیا تھا۔ وہ حلقے کے ووٹرز میں سوشل ورکر اور عوامی ایشوز پر آواز اٹھانے کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔
آزاد امیدواروں میں سے ارسلان حمید اور سلطان رئیس انتخابات میں پہلی بار حصہ لے رہے ہیں اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے پرجوش ہیں۔ گلگت بلتستان کا حلقہ 1، ضلع گلگت کا حصہ ہے۔ یہ حلقہ گلگت شہر کے اہم علاقوں نومل، نلتر، بسین، علامہ اقبال ٹاؤن، تارگہ، شروٹ، شیکوٹ، ہنزل، امپھری اور برمس پر مشتمل ہے۔
ضلع گلگت مذہبی حوالے سے انتہائی حساس سمجھا جاتا ہے۔ اس ضلع کی کل آبادی 2 لاکھ 22 ہزار سے زائد ہے اور ان کا ذریعہ معاش کاشتکاری اور تجارت ہے۔ اس حلقے کی اہم برادریوں میں کشمیری، شین، یشکن، گجر، ڈوم اور پٹھان شامل ہیں۔
اکہتر سکول وکالج اور ایک یونیورسٹٰی ‘’قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی’’ اس ضلع میں قائم ہیں اور یہاں شرح خواندگی کی تقریباً 95 فیصد ہے۔ اس کے باوجود یہاں سے کسی خاتون امیدوار نے انتخابی دوڑ میں حصہ نہیں لیا۔
یہ ضلع چار جھیلوں (نلتر، بوریتہ، رش، پہوتے) اور دنیا کے نویں بلند ترین پہاڑ دستاغل سرے کی وجہ سے دنیا میں پہچانا جاتا ہے اور ہر سال سیاحوں کی بڑی تعداد اس ضلع میں سیاحت کی غرض سے آتی ہے۔