اسلام آباد: (دنیا نیوز) سینیٹ انتخابات آئین کے تحت خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوں گے، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر محفوظ شدہ رائے سنا دی۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا ہے کہ ووٹ کی سیکریسی ہمیشہ کے لیے دائمی نہیں رہتی، عدالت نے چار ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سینیٹ انتخابات آئین کے مطابق آرٹیکل 226 کے تحت ہوں گے، الیکشن کمیشن صاف و شفاف اور منصفانہ انتخابات کرانے کا پابند ہے، آرٹیکل 222 کے تحت پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ الیکشن کے معاملات میں قانون سازی کرے، آئین واضح کرتا ہے کہ پارلیمان کی کوئی قانون سازی سے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر اثرانداز نہ ہو، الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرے جبکہ تمام ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں۔
عدالت نے نیاز احمد کیس کا حوالہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ ووٹ کی سکریسی دائمی نہیں ہوتی، جہاں تک ووٹ کے خفیہ رہنے کا تعلق ہے، سپریم کورٹ اپنے فیصلے میں قرار دے چکی ہے کہ کرپٹ پریکٹسز کو دیکھا جائے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو صدارتی ریفرنس پر رائے نہیں دینی چاہیے، ریفرنس میں پوچھا گیا سوال قانونی نہیں اس لیے ریفرنس بغیر رائے کہ واپس بھیج دیا جائے۔
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے دنیا نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا آئینی اور قانونی فیصلہ ہے، سینیٹ الیکشن دلچسپ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ حفیظ شیخ اسلام آباد سے جیتیں گے، باقی صوبوں میں سیٹلمنٹ ہو رہی ہے، خیبرپختونخوا میں بھی بات چیت چل رہی ہے اس کا فیصلہ بھی آج شام تک ہو جائے گا۔
ادھر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما و سینیٹر فیصل جاوید نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تمام فریقین کی بات سنی گئی، فیصلہ خوش آئند ہے، خفیہ رائے شماری تاقیامت نہیں ہے، سینیٹ انتخاب میں ووٹ کی نشاندہی ہوسکے گی، عمران خان ہر سطح پر کرہشن کا خاتمہ چاہتے ہیں، اپوزیشن ہر سطح کی کرپشن کا تحظ چاہتی ہے، لوگ کرپشن کیخلاف باہر نکلتے ہیں کرپشن کے حق میں نہیں۔
خیال رہے سپریم کورٹ نے جمعرات کو سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد رائے محفوظ کرلی تھی۔
سماعت کے دوران وکیل پاکستان بار کونسل منصور عثمان اعوان کا اپنے دلائل میں کہنا تھا کہ اگر سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کیا تو اس کا اثر تمام انتحابات پر ہوگا، آئین میں کسی الیکشن کو بھی خفیہ بیلٹ کے ذریعے کروانے کا نہیں کہا گیا، درحقیقت الیکشن کا مطلب ہی سیکرٹ بیلٹ ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کے سامنے سوال صرف آرٹیکل 226 کے نفاذ کا معاملہ ہے، کیا وجہ ہے کہ انتحابی عمل سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ترمیم نہیں کی جا رہی ؟ انتحابی عمل شفاف بنانے کے لیے پارلیمنٹ میں قراردادیں منظور ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ اوپن بیلٹ سے متعلق ترمیمی بل پارلیمنٹ میں موجود ہے تو ترمیم میں کیا مسئلہ تھا ؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کا دور گزرا ترمیم کیوں نہیں کی ؟ پیپلز پارٹی دور میں بھی سینیٹ الیکشن سے متعلق موقع تھا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں سینیٹ الیکشن میں کرپٹ پریکٹس کو تسلیم کر رہی ہیں، آپ نے ویڈیوز بھی دیکھی ہیں، کیا آپ دوبارہ وہی کرنا چاہتے ہیں، سب کرپٹ پریکٹس کو تسلیم بھی کر رہے ہیں لیکن خاتمے کے لیے اقدامات کوئی نہیں کر رہا، ہر جماعت شفاف الیکشن چاہتی ہے لیکن بسم اللہ کوئی نہیں کرتا۔