اسلام آباد: (دنیا نیوز) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخابات کی تاریخ تبدیل کرتے ہوئے اب 10 اپریل کو کرانے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس حلقے میں انتخابات 18 مارچ کو ہونا تھے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پنجاب حکومت کو ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے خصوصی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ضلعی افسران کی معطلی اور تبادلے کے بعد نئے افسران کو صورتحال سمجھنے میں وقت درکار ہے، پنجاب حکومت مستقل بنیادوں پر خالی آسامیوں پر انتظامی افسران تعینات کرے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے این اے 75 ڈسکہ کے ضمنی الیکشن کا تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 19 فروری کو ہونے والا الیکشن صاف شفاف اور آزادانہ نہیں تھا۔
الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ 20 پولنگ سٹیشنز کے فارم 45 تاخیر سے ملے، جو ٹمپرڈ تھے۔ دیر سے آنے والے پریذائیڈنگ افسران خوفزدہ رہے اور حیلے بہانے بنائے۔ پولنگ عملے کا غائب ہونا نتائج پر شکوک پیدا کرتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ این اے 75 میں ضمنی الیکشن کے دوران انتخابی قوانین کی بڑی خلاف ورزیاں ہوئیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی حلقے میں تبادلوں پر پابندی تھی لیکن ڈی ایس پی ذوالفقار ورک کو نام تبدیل کرکے دوبارہ ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
الیکشن کمیشن کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ این اے 75 میں انتخابی خلاف ورزیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ شفاف انتخابات ہماری بنیادی ذمہ داری ہے۔ آرٹیکل 218 اور الیکشن ایکٹ کی شق 9 کے تحت انتخاب کالعدم قرار دیا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ امیدوار اسجد ملہی نے لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کے خلاف کوئی شکایت نہیں کی جبکہ حلقے میں دو افراد قتل اور متعدد زخمی ہوئے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ2018 ء کے عام انتخابات میں اس حلقے میں ٹرن آؤٹ 55.78 فیصد تھا جبکہ ضمنی الیکشن میں 46.92 رہا۔ فائرنگ کے واقعات کے باعث چالیس پولنگ سٹیشنز پر پولنگ رکی رہی۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ خراب صورتحال پر چیف الیکشن کمشنر کے آئی جی اور چیف سیکرٹری کے ساتھ رابطوں کا بھی جواب نہیں دیا گیا۔ آخرکار چیف الیکشن کمشنر نے سیکرٹری داخلہ سےرابطہ کیا۔ الیکشن کمیشن نے کہا کہ 20 پولنگ سٹیشنز کے نتائج تاخیر سے صبح 6 بجے موصول ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: این اے 75 ڈسکہ میں ری پولنگ کا حکم معطل کرنے کی پی ٹی آئی کی استدعا مسترد
ادھر سپریم کورٹ نے این اے 75 ڈسکہ ضمنی انتخاب سے متعلق الیکشن کمیشن سے تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی فوری حکم امتناعی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے این اے 75 ڈسکہ انتخاب سے متعلق الیکشن کمیشن فیصلے کیخلاف درخواست پر سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکیل شہزاد شوکت نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سب کہہ رہے ہیں حلقے کے 23 پولنگ سٹیشنز پر مسئلہ ہے، وزیراعظم بیان دے چکے 23 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ الیکشن کرائے جائیں، پارٹی لیڈر کے بیان کے بعد کمیشن کا موقف بدلا اور پورے حلقے میں الیکشن کا کہا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس دوبارہ انتخابات کرانے کے اختیار نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے کہا الیکشن صاف و شفاف طریقے سے ہونے چاہئیں۔ پی ٹی آئی وکیل نے کہا کہ ن لیگ نے صرف 23 پولنگ سٹیشنز پر اعتراض کیا تھا، آر او کے مطابق 360 میں سے 340 سٹیشنز کے نتائج پر اعتراض نہیں کیا گیا، وزیراعظم نے 23 پولنگ سٹیشنز پر دوبارہ انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے اپیل پر فیصلے تک دوبارہ الیکشن کا حکم معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 18 مارچ کو دوبارہ پولنگ کا حکم دیا، الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخابات کا حکم دے کر اختیارات سے تجاوز کیا، آئندہ سماعت تک عدالت الیکشن کمیشن کا حکم معطل کرے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہو سکتا ہے پولنگ ڈے سے قبل ہی سماعت مکمل ہو جائے، الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار پر دلائل دیں۔
عدالت نے این اے 75 ڈسکہ ضمنی انتخاب سے متعلق الیکشن کمیشن سے تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی فوری حکم امتناعی کی درخواست مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے جواب کا جائزہ لینے کے بعد حکم امتناعی کی درخواست پر فیصلہ جاری کریں گے۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت منگل تک ملتوی کر دی۔