اسلام آباد: (دنیا نیوز) براڈ شیٹ انکوائری کمیشن رپورٹ کے مزید مندرجات سامنے آ گئے ہیں، رپورٹ کے مطابق 15 لاکھ ڈالر کی غلط ادائیگی کے ذمہ دار سابق ڈپٹی ہائی کمشنر لندن عبدالباسط ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کیا دنیا کا کوئی سفارتی معاہدہ ایسا ہوتا ہے جس میں جگہ خالی چھوڑی گئی ہو۔ رپورٹ نے ادائیگیوں میں تاخیر کی ذمہ داری موجودہ دور کی بیوروکریسی پر بھی ڈالی ہے۔
ذرائع کے مطابق ادائیگیوں میں تاخیر سے 9 ملین ڈالر جرمانہ ادا کیا گیا۔ براڈ شیٹ کمیشن رپورٹ سیکرٹری فنانس عوام اور حکومت کو جوابدہ ہیں۔ کاوے موسوی کے حوالے سے کمیشن رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ موسوی ایک ناقابل اعتبار شخص ہیں،کاوے موسوی کے الزامات براڈ شیٹ انکوائری کمیشن کے ٹی او آر سے باہر ہیں۔ان کے الزامات پر تحقیقات کا فیصلہ خود حکومت کرے
یاد رہے کہ گزشتہ روز براڈ شیٹ کی تحقیقات کرنے والے کمیشن نے رپورٹ مکمل کر کے وزیراعظم عمران خان کو پیش کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق براڈشیٹ کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر کی غلط ادائیگیاں کی گئیں، کمیشن نے نیب کو سوئس مقدمات کا سربمہر ریکارڈ کھولنے کی بھی سفارش کر دی۔
جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید پر مشتمل ایک رکنی کمیشن نے مجموعی طور پر 26 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے جب کہ ایک سابق خاتون لیگل کنسلٹنٹ طلبی کے باوجود کمیشن میں پیش نہیں ہوئیں۔ ذرائع کے مطابق براڈشیٹ کمیشن کو تمام تفصیلات نیب دستاویزات سے ملیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غلط ادائیگی کو صرف بے احتیاطی قرار نہیں دیا جا سکتا، اتنی بڑی رقم غلط شخص کو ادا کرنا ریاست پاکستان کے ساتھ دھوکہ ہے۔ وزارت خزانہ، وزارت قانون اور اٹارنی جنرل آفس سے فائلیں چوری ہوگئیں، پاکستانی ہائی کمیشن لندن سے بھی ادائیگی کی فائل سے مخصوص حصہ غائب ہوگیا۔
براڈ شیٹ کمیشن آصف زرداری کے سوئس مقدمات کا ریکارڈ بھی سامنے لے آیا۔ کمیشن نے نیب کو سوئس مقدمات کا سربمہر ریکارڈ کھولنے کی سفارش کر دی۔ نیب ریکارڈ کو ڈی سیل کر کے جائزہ لے کہ اس کا کیا کرنا ہے، سوئس مقدمات کا تمام ریکارڈ نیب کے سٹور روم میں موجود ہے۔
خیال رہے براڈ شیٹ کمیشن نے 9 فروری کو کام شروع کیا تھا۔
واضح رہے کہ جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں بننے والے انکوائری کمیشن نے براڈ شیٹ کیس کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔
ذرائع کے مطابق براڈشیٹ انکوائری کمیشن کی 100 صفحات پر مشتمل رپورٹ تیار کر لی گئی ہے، انکوائری رپورٹ رواں ہفتے کسی بھی دن وفاقی حکومت کو بھجوا دی جائے گی۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ 100 صفحات کی رپورٹ کے ساتھ مخلتف شخصیات کے بیانات اور دستاویزات کو الگ رکھا گیا ہے۔