شفقت، رفاقت اور الخدمت

Published On 21 April,2021 02:04 pm

(محمد عبدالشکور) والدین کا سایہ دھوپ میں چھاؤں، بارش میں چھت، صحرا میں پانی اور زندگی میں رحمت خداوندی کے مترادف ہے۔ اس سائے سے محروم افراد کیلئے دھوپ گرمی حشر کا سامان، بارش مصائب کی وجہ، صحرا موت کا پیغام اور زندگی عذاب کی صورت اختیار کر جاتی ہے۔ معاشرہ انہیں نظر انداز کرتا ہے تو زمانہ انہیں طوفان میں اڑتے تنکوں کی مانند وقت کی دھول کے ساتھ اڑاتا چلا جاتا ہے۔ انہیں چھوٹی سے کوشش طوفان میں ڈوبنے سے بچا لیتی ہے، وقت کی بے رحم موجوں میں انہیں ایک تنکا بھی جینے کا حوصلہ دے دیتا ہے۔اسلام نے ان بے آسراوں کی کفالت پر رحمتوں کی بشارت سنائی ہے، نبی مہربان ﷺ کی رفاقت کا انعام دیا ہے۔

یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں 150 ملین سے زائد یتیم بچے اور بچیاں موجود ہیں، جن میں سے 65ملین کے قریب ایشیا میں ہیں، پاکستان کا جائزہ لیا جائے تو 40سے 50لاکھ بچے والدین کی شفقت سے محروم ہیں۔ یہ بچے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے پاکستانیوں کیلئے ایک امتحان ہیں۔ یہ معصوم پھول اہل وطن کی جانب دیکھ رہے ہیں کہ کوئی زمانے کی گرد سے ایسا تنکا اٹھے اور ان کا سہارا بن جائے، کوئی ایسی روشنی کی کرن پھوٹے جو ان کی زندگیوں میں اجالا کردے۔ کوئی ایسی ٹھنڈی ہوا کا جھونکا چلے جو صحرائے حیات میں ان کیلئے راحت کا سامان پیدا کردے۔ انہی پھولوں کیلئے باغبان، بچوں کیلئے سائباں اور زمانے کی دھول میں اٹے ہیروں کو تراشنے کا بیڑا الخدمت فاؤنڈیشن پاکستان نے اٹھا رکھا ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن دو بڑے منصوبوں پر کام کررہی ہے، پہلا منصوبہ یتیم بچوں کی ان کے گھروں پرکفالت کے حوالے سے ہے، جس کے تحت ایسے یتیم بچے اور بچیاں جو اپنے خاندان کے کفیل کے نہ ہونے کے باعث بنیادی ضروریات ِ زندگی سے محروم ہو جاتے ہیں ان کی کفالت کا اہتمام اُن کے گھروں میں کیا جارہا ہے۔ کفالت یتامیٰ کے اس پروگرام کا آغاز الخدمت فاؤنڈیشن نے 2012 میں کیا جبکہ الخدمت کا دوسرا بڑا منصوبہ آغوش ہے، آغوش صرف ایک منصوبہ نہیں، یہ سینکڑوں یتامیٰ کیلئے سائبان ہے، امید کی کرن ہے، زندگی کا راستہ ہے اور راحت کا سامان ہے۔ اس منصوبے کا آغاز 2005 کے زلزلے میں والدین سے محروم بچوں کیلئے ایک چھوٹا سا گھر بنانے سے کیا گیا۔ الخدمت کا یتیم بچوں کو جینے کا ہنر سکھانے کیلئے تیسرا بڑامنصوبہ چائلڈ اینڈ مدرکیریکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔

 اس وقت الخدمت فاونڈیشن ملک بھر میں 13 ہزار 694 یتیم بچوں کی ان کے گھروں پر کفالت کر رہی ہے، ان یتیم بچوں کو الخدمت کی جانب سے 4 ہزار روپے ماہانہ ادا کرتی ہے یعنی ایک یتیم بچے پر سالانہ 42 ہزار روپے خرچ آتا ہے، اس ماہانہ خرچ کے علاوہ یتیم بچوں کی صحت و تعلیم کے حوالے سے بھی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، انہیں تعلیم دینے کیلئے وردی، کتابیں، کاپیاں اور بستے فراہم کئے جاتے ہیں۔ یہ رقم اس قدر شفافیت کیساتھ ادا کی جاتی ہے کہ اس میں بددیانتی کا سوال تک نہیں پیدا ہوتا۔ الخدمت کے تحت یتیم بچے کی والدہ یا سربراہ کے نام پر اکاونٹ کھولا جاتا ہے اور ہر تین ماہ کے بعد 12 ہزار پانچ سو روپے انکے اکاونٹ میں بھیج دئیے جاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ الخدمت فاونڈیشن اس پیسے کے درست استعمال کا جائزہ کیسے لیتی ہے؟ اسکا جائزہ لینے کیلئے الخدمت فاونڈیشن نے ملک بھر میں66 کلسٹرز بنائے ہیں، ہر کلسٹر میں 100 سے 250 بچے شامل ہوتے ہیں ، کلسٹرکی نگرانی الخدمت کی جانب سے مقرر کردہ فیملی سپورٹ آرگنائزر کرتا ہے۔ یہ آرگنائزر جائزہ لیتا ہے کہ بچے سکول جاتے ہیں؟ انہیں گھر اور تعلیمی ادارے میں کوئی مسئلہ تو درپیش نہیں؟ کیا الخدمت کی جانب سے جاری کردہ فنڈز بچوں کی فلاح کیلئے استعمال ہورہے ہیں؟ یہ نگران فیملی سربراہ اور تعلیمی ادارے کے سربراہ سے مسلسل رابطے میں رہتا ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن نے اِن یتیم بچوں کا سہارا بننے کے لیے خود کو صرف تعلیم، خوراک، صحت اور دیگر ضروریات تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ ایک مشکل لیکن اہم کام اِن یتیم بچوں کی تربیت اور کردار سازی کا بیڑہ بھی اٹھایا ہے۔ چھوٹے بچوں کی دلچسپی کے پیشِ نظر اُن کیلےب تصویری کتب بنائی گئی ہیں جبکہ بڑے بچوں کیلئے عملی سرگرمیوں پر مشتمل نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔اس وقت ملک بھر میں 148ماڈل سٹڈی سنٹرز کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے جہاں بچے اور اس کی ماں کے لئے ماہانہ بنیادوں پر سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔باہمت ماں کے نام سے منصوبے کے تحت بیوہ ماؤں کوخود کفیل بنانے کیلئے 35 ہزار تک بلاسود قرضے دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا کاروبار شروع کرسکیں، اسکے ساتھ ساتھ ان کیلئے تربیتی ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج سینکڑوں باہمت مائیں کوکنگ، کڑھائی، سلائی کے کاروبار کے علاوہ بیوٹی پارلر، کریانہ سٹور اور اسٹیشنری شاپس چلا رہی ہیں۔

8اکتوبر 2005، آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں ایک قیامت صغریٰ برپا ہوئی، ہزاروں افراد جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہزاروں ہی عمر بھر کیلئے معذور ہوئے لیکن یہ زلزلہ ہزاروں بچوں کیلئے تباہی کا پیغام لے کر آیا، ان کے سر سے والدین کا سایہ اٹھ گیا، ان کی زندگیاں اجیرن بن گئیں، ایسے میں اپنے ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے الخدمت فاؤنڈیشن نے اپنا ہاتھ بڑھایا، ان یتیم بچوں کو اپنا بنانے کا منصوبہ تیار کیا، مخیر حضرات نے اپنے دلوں کے دروازے کھول دئیے۔الخدمت نے انتہائی قلیل مدت میں اٹک میں ان بچوں کیلئے شاندار رہائشی منصوبے کا آغاز کیا، آغوش کے نام سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کے تحت والدین کی شفقت سے محروم بچوں کی پرورش، تعلیم و تربیت، صحت، نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔آغوش ایک منصوبہ ہی نہیں بلکہ حقیقت میں یتیم بچوں کیلئے ماں کی ممتا، باپ کی شفقت، بہنوں اور بھائیوں کے پیار کا نمونہ ہے، یہ وہ آغوش ہے جہاں یتیم بچوں کو گھر سے دور رہ کر بھی گھر سے دوری کا احساس نہیں ہوتا۔

الخدمت کی جانب سے اٹک میں لگائے گئے اس پودے کی جڑیں اس وقت تیزی سے پھیل رہی ہیں،شیخوپورہ،راولپنڈی،راولاکوٹ، باغ،پشاور،لوئردیر، ڈیرہ اسماعیل خان، مانسہرہ،کوہاٹ، گوجرانوالہ میں الخدمت آغوش سینٹرز پوری طرح فعال ہیں، الخدمت فاؤنڈیشن نے اسلام آباد میں یتیم بچیوں کیلئے بھی ایک آغوش سینٹر قائم کر ررکھا ہے جبکہ مری کاسنٹر آف ایکسی لینس فائیو سٹار سہولیات سے آراستہ ہے۔ نہ صرف پاکستان بلکہ آغوش کی چھاؤں شامی یتیم بچوں کے لئے ترکی تک پہنچ چکی ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن نے ترکی میں موجود شامی مہاجرین یتیم بچوں کیلئے ایک خوبصورت سینٹر قائم کر رکھا ہے۔ اس وقت الخدمت آغوش ایک 11سوسے زائد بچوں کو زمانے میں جینے کا ہنر سکھا رہی ہےجبکہ سینکڑوں یتیم بچے آغوش سے زندگی کے اسرار و رموز سمجھنے کے بعد معاشرے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

آغوش آرفن سینٹر میں ایک طالب علم پر ماہانہ 12 ہزار روپے خرچ آتا ہے جبکہ الخدمت اس منصوبے کے تحت ایک بچے پر سالانہ 1 لاکھ 44 ہزار خرچ کرتی ہے۔یہی نہیں بلکہ الخدمت کے زیر اہتمام اس وقت لاہور، شیخوپورہ(طالبات)، کراچی،مری(ہاسٹل بلاک)، ہالہ،چترال،بونیر، ہری پور اور گلگت بلتستان میں آغوش سینٹرز کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے جبکہ اگلے چند سالوں میں سوات، باجوڑ، چارسدہ، آزاد کشمیراور کوئٹہ سمیت دیگر شہروں میں بھی الخدمت آغوش سینٹرز قائم کئے جائیں گے۔

آغوش الخدمت سینٹرز میں یتیم بچے اور بچیوں کو رہائش کی بہترین سہولیات، تین وقت بہترین کھانا، کھیل اور تفریح کے مواقع، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے اخراجات، تفریحی مقامات کے دورے، ہم نصابی سرگرمیوں کا اہتمام، کپڑے اور جوتے دئیے جاتے ہیں، الغرض ایک بچے پر جو والد کا حق ہے، الخدمت کی آغوش وہ تمام فرائض ادا کرتی ہے۔ آغوش اس وقت ملک کے لاکھوں بچوں کیلئے امید کا استعارہ بن چکی ہے، ان کی زندگیوں کو منور کرنے والی وہ روشنی ہے جو ان کے اندر جینے کا چراغ روشن کر رہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ اس آغوش کو مزید یتیم بچے سمیٹنے کیلئے اپنا تعاون بڑھایا جائے، شفقت کے اس نمونے کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں تاکہ روز محشر رفاقت رسول ﷺ حاصل کی جاسکے۔

عطیات کیلئے وزٹ کریں:

https://Alkhidmat.org/give