اسلام آباد: (دنیا نیوز) مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز نے این اے 249 الیکشن کے حوالے سے کراچی کا دورہ منسوخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا جتنا بڑا گروپ نظر آرہا ہے، دراصل گروپ اس سے بہت بڑا ہے اور وہ ناصرف ہم سے بلکہ دوسری جماعتوں سے بھی رابطے میں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی میرے اہداف میں شامل نہیں، جیالی قیادت راہیں جدا کرنے کی خود ذمہ دار ہے۔
رائیونڈ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مریم نے کورونا کے تیزی سے پھیلاؤ کی وجہ سے دورہ کراچی منسوخ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ذاتی طور پر شہر قائد جا کر وہاں کے عوام کو مسلم لیگ(ن) کے منشور کے حوالے سے آگاہ کرنا چاہتی تھی لیکن مجھے ان کی صحت اور زندگی زیادہ مقدم ہے اور میں محض سیاسی فوائد کے لیے کسی کی زندگی خطرے میں نہیں ڈال سکتی۔
ان کا کہنا تھا کہ میں کراچی، سندھ اور این اے-249 کے عوام سے یہ اپیل کرنا چاہتی ہوں کہ آپ کے مسائل اور مشکلات کا حل اگر کسی جماعت کے پاس ہے تو مسلم لیگ(ن) ہے جو کراچی کی خدمت کرنا چاہتی ہے اور ماضی میں کراچی کے مسائل کو حل بھی کر چکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 2018 کے الیکشن میں شہباز شریف کراچی سے کئی ہزار کی برتری سے جیت چکے تھے، پر ووٹ چوروں نے پاکستان کی دیگر جگہوں کی طرح اس الیکشن پر بھی ڈاکا ڈالا اور چند سو ووٹوں دھاندلی کر کے شہباز کو ہرایا گیا اور مجھے پتہ ہے کہ آج بھی این اے-249 کا دل نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ دھڑکتا ہے۔
پیپلز پارٹی سے رابطوں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ سینیٹ کے معاملات کے بعد میرا کسی سے رابطہ نہیں ہوا، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ آج بھی اسی طرح کھڑی ہے اور آپ کو پتہ ہے مولانا فضل الرحمٰن نے اس کا اجلاس 26اپریل کو اسلام آباد میں بلایا ہے۔ رمضان المبارک کے بعد پی ڈی ایم کیا حکمت عملی بناتی ہے اس کا فیصلہ اجلاس میں ہو جائے گا، اس تحریک کا مستقبل بہت روشن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف ، حمزہ شہباز کا جیل میں رہنا اور ہمت و استقامت سے جیل کاٹنا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آج بھی اپنے قائد کے ساتھ کھڑے ہیں اور میرے والد کو چھوڑنے اور نقصان پہنچانے پر تیار نہیں ہیں اور اگر وہ اس سلسلے میں ذرا سی بھی آمادگی ظاہر کرتے تو آج پاکستان کے وزیراعظم ہوتے اور جیلوں میں نہ ہوتے۔
مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر نے کہا کہ توشہ خانہ کیس میں نواز شریف کو جس طرح سے اشتہاری قرار دے کر راتوں رات کارروائی کی گئی وہ مضحکہ خیز بات تھی، اس کا ایک ہی مقصد تھا کہ نواز شریف کو کھینچ کر پاکستان واپس لے کر آئیں، انہوں نے برطانیہ سے بھی رابطہ کیا لیکن وہاں سے بھی مایوسی ہوئی کیونکہ وہاں انصاف بکتا نہیں ہے، وہاں کسی کے ساتھ ناانصافی کرنا مشکل کام ہے اور وہاں سے مایوسی کے بعد انہوں نے نواز شریف کو اشتہاری قرار دے کر ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کیں۔
ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان ڈیوم کریٹک موومنٹ کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن کریں گے جبکہ مسلم لیگ(ن) کی سربراہی شہباز شریف کریں گے اور ہم ان کے ساتھ ہوں گے۔
ایک سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ تحریک انصاف کے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کا جتنا بڑا گروپ نظر آیا ہے، دراصل گروپ اس سے بہت بڑا ہے اور وہ بہت پہلے سے ناصرف ہم سے بلکہ دوسری جماعتوں سے بھی رابطے میں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب کو اپنے اپنے حلقوں میں واپس جانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کا اعلان ہونے دیں، یہ لوگ اپنے حلقوں میں مہم شروع نہیں چلا سکیں گے، عوام کی نبض کا سب کو پتہ ہوتا ہے لہٰذا بہانہ تو جہانگیر ترین گروپ کا ہے اصل میں بات یہ ہے کہ یہ تحریک انصاف کے ٹکٹ سے الیکشن نہیں لڑنا چاہتے، یہ عوام کے غیض و غضب کا سامنا اور عمران خان کی نالائقی اور نااہلی کا بوجھ نہیں ڈھونا چاہتے۔
تحریک انصاف کے جتنے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا گروپ آپکو نظر آیا ہے میں آپکو بتادوں کہ گروپ اس سے بہت بڑا ہے اور وہ بہت پہلے سے ہمارے سے بھی اور دوسری جماعتوں سے رابطے میں ہیں اسکی وجہ یہ ہے کہ انکو اپنے حلقوں میں اب واپس بھی جانا ہے.@MaryamNSharif pic.twitter.com/3qSwUqZwnJ
— PML(N) (@pmln_org) April 24, 2021
دورہ کراچی فوری منسوخ کرنے کے حوالے سے سوال پر مسلم لیگ(ن) کی رہنما نے کہا کہ کورونا وائرس پہلے اس خطرناک حد تک جان لیوا نہیں تھا اور اب وہ زیادہ بڑھ گیا ہے، آپ دیکھ رہے ہیں سڑکوں پر فوج اور رینجرز بھی آ گئی ہے تو میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے کسی کو کوئی تکلیف پہنچے۔
ایک اور سوال کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے سیاسی بنیادوں پر اپنی راہیں جدا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو اس کی ذمے دار وہ خود ہے، اس کی وجوہات بھی وہ خود تفصیل سے بتا سکتے ہیں، یہ نہ ہوتا تو اچھا تھا لیکن پیپلز پارٹی میرا ہدف نہیں ہے اور میں مکمل حکمت عملی کے ساتھ اپنے اہداف کا تعین کرتی ہوں، اس میں پیپلز پارٹی کہیں شامل نہیں ہے۔ میرا بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کے دیگر اراکین کے ساتھ اچھا تعلق ہے اور باپ سے ووٹ لینے پر میں نے جو بیان دیا وہ اصولی بات تھی اور کسی کی ذات یا کسی پارٹی پر حملہ نہیں تھا کیونکہ پی ڈی ایم کے بیانیے کو اس سے نقصان پہنچا۔ کراچی میں ہم پیپلز پارٹی کے خلاف الیکشن لڑ رہے ہیں، ہم مکمل جدوجہد کر کے حلقے کا الیکشن جیتنے کی کوشش کریں گے لیکن ذاتیات پر حملے نہیں کریں گے۔