اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے زیر صدارت ہونے والے ایک اہم اجلاس میں مظلوم فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کی قرارداد متقفہ طور پر منظور کر لی گئی ہے۔ یہ قرارداد وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے پیش کی۔
اس مشترکہ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ سیکیورٹی کونسل اسرائیلی جارحیت فوری رکوانے کے لیے اقدامات کرے۔ نہتے فلسطینیوں پر بڑھتی اسرائیلی بربریت پر بہت تشویش ہے۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ایوان فلسطینیوں کے لیے آزاد اور خود مختار ریاست کا مطالبہ کرتا ہے۔ ہم مسجد الاقصیٰ پر اسرائیلی حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم، پاکستان اور ترکی کا اقوام متحدہ جانے کا فیصلہ
دوسری جانب فلسطینی عوام پر صہیونی مظالم کیخلاف پاکستان اور ترکی نے اقوام متحدہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاک ترک وزرائے خارجہ اقوام متحدہ میں فلسطین کیلئے بھرپور آواز اٹھائیں گے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ وہ آج اقوام متحدہ اجلاس میں شرکت کیلئے روانہ ہونگے۔ قومی اسمبلی کے اہم اجلاس میں غزہ کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہماری پہلی ذمہ داری فلسطین میں سیز فائر کرانا ہے۔ سلامتی کونسل اور او آئی سی میں پاکستان کے تاریخی موقف پر رجحان بڑا واضح دکھائی دے رہا تھا۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے فلسطین میں جارحیت کی مذمت کی ہے۔ گزشتہ روز 16 مئی کو فلسطین کے حوالے سے دو اہم اجلاس منعقد کیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک او آئی سی ایگزیکٹو کمیٹی فارن منسٹر کا اجلاس جبکہ دوسرا اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس تھا۔ سیکیورٹی کونسل اجلاس کو چین کے وزیر خارجہ نے چیئر کیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں یہاں چین کی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ چین نے سلامتی کونسل کو یکجا کرنے کی کوشش کی۔ سلامتی کونسل کے تمام ممبران قائل ہو چکے تھے لیکن بدقسمتی سے امریکا نے ویٹو کرکے راستے میں رکاوٹ ڈالی۔
انہوں نے کہا کہ ایوان سے وعدہ ہے کہ ہم مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ مانتا ہوں راستے کٹھن ہے، عالمی دنیا کا دہرا معیار ہے لیکن سچائی میں بڑا وزن ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطین میں قتل عام اسلامی دنیا کے لیے پیغام ہے، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف
اپوزشن لیڈر میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ 1948ء سے لے کر آج تک اسرائیلی فوج نہتے فلسطینیوں پر ظلم کر رہی ہے۔ مشرقی یروشلم میں انتہا پسند یہودیوں نے مارچ کیا، پوری دنیا نے یہ دلخراش مناظر دیکھے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میں آج یہاں اس ایوان میں حکومت کی چیرہ دستیوں اور اپوزیشن کے خلاف ظلم کا ذکر نہیں کروں گا۔ کیونکہ آج ہم نے اسرائیل کے مظالم کی بات کرنی ہے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں مسجد اقصیٰ میں نہتے نمازیوں پر حملے کیے گئے۔ اسرائیل کی بدترین سفاکی زوروں پر ہے۔ ماضی میں فاشسٹ ہٹلر جہاں تھا، آج وہاں نیتن یاہو کھڑا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطین کی دوسری نسل بدترین ظلم کا شکار ہے۔ حالیہ جارحیت کے نیتجے میں درجنوں بچے اور خواتین کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی بمبار طیاروں نے اندھا دھند گولہ باری کی۔ غزہ میں الجزیرہ چینل کی بلڈنگ کو گرتے دنیا نے دیکھا۔ اس طرح کی سفاکی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ یہ ہے وہ ظلم کی داستان جو فلسطینی آج تک برداشت کر رہے ہیں۔ اوسلو کے معاہدے کو انہوں نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا۔ یاسر عرفات، منہان بھیگن کو نوبل پرائز ملے لیکن آزاد فلسطین کا قیام آج تک نہ ہو سکا۔ کشمیر کی طرح فلسطین کی قراردادوں کو بھی ٹھکرا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں قتل عام اسلامی دنیا کے لیے پیغام ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا رواج جڑیں پکڑ رہا ہے۔ قومی اسمبلی کو آج 22 کروڑ عوام کی دلوں کی آواز بننا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج عالم اسلام کے اندر ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل غمگین ہے۔ دوسرے ممالک نے بھی اسرائیلی سفاکیت کی مذمت کی ہے۔ نہتی قوم پر اسرائیلی فوج بمباری کر رہی ہے۔ اگر خدانخواستہ ایسی ہلکی سی حرکت کوئی اسلامی ملک کرتا تو پھر کیا عالمی طاقتیں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھتی؟ اگر کوئی اسلامی ملک ایسا کرتا تو فوری جنگ مسلط کر دی جاتی اور ہر قسم کی پابندیاں لگا دی جاتیں۔ آج عالمی میڈیا خاموش ہے، اس کی زبان کو تالے لگ گئے ہیں۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ ایسی حرکت کسی اور ملک میں ہوتی تو کیا دنیا خاموش رہتی؟ آج عالمی طاقتیں کہاں ہیں؟ فلسطینیوں کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے حوالے سے قراردادوں پر کتنی تیزی سے عمل کیا گیا تھا۔ مشرقی تیمور کو آزادی دلوائی گئی تھی لیکن اس کے مقابلے میں بوسنیا میں کیا ہوا تھا؟
شہباز شریف نے کہا کہ بوسنیا میں سینکڑوں لوگوں کو لقمہ بنایا گیا۔ بوسنیا میں اجتماعی قبروں کا بدترین سکینڈل سامنے آنے تک عالمی طاقتوں کا ضمیر نہیں جاگا تھا۔ بوسنیا میں شہروں کے شہر قبرستان بن گئے تھے۔ بوسنیا، ایسٹ تیمور اور جنوبی سوڈان کا موازنہ کریں گے تو صورتحال سمجھ آ جائے گی۔