اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی دا رالحکومت کا سیف سٹی پراجیکٹ سفید ہاتھی بن گیا۔ شہر میں انیس سو کیمرے نصب ہیں لیکن جرائم پر قابو نہ پایا جا سکا۔ سیف سٹی کیمروں میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس اور چہرے کی شناخت کی صلاحیت ہی نہیں۔
سیف سٹی کیمروں میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹس اور چہرے کی شناخت کی صلاحیت ہی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اب تک شہر اقتدار میں ہونے والے کسی بھی بڑے جرم کی تحقیق میں سیف سٹی کیمروں سے کوئی مدد نہ مل سکی۔
منصوبے کے تحت شہر بھر میں مجموعی طور 4500 کیمرے نصب کیے جانے تھے لیکن 2016 میں 1400 کیمرے لگانے کے بعد ہی منصوبے کو شروع کر دیا گیا۔ 500 مزید کیمرے لگانے کے بعد 2019 میں نادرا نے سیف سٹی منصوبے کا انتظامی کنٹرول پولیس کے حوالے کر دیا گیا لیکن 5 سال گزرنے کے بعد بھی نادرا، ایکسائز، کسٹمز اور پولیس کے درمیان کوآرڈینیشن کا کوئی نظام تشکیل نہیں دیا جا سکا۔
سیکیورٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا میں سیف سٹی جیسے منصوبوں سے ہی جرائم کی روک تھام کی جا رہی ہے لیکن ہمارے لوگ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے لئے تربیت یافتہ ہی نہیں۔ سیف سٹی منصوبہ کے آلات لگانا ہی کافی نہیں ہوتا عملے کی تربیت بھی لازمی ہوتی ہے، یہی وجہ ہےکہ لاہور سیف سٹی منصوبہ کسی حد تک کامیاب ہے۔
سیف سٹی پراجیکٹ میں کام کرنے والے تمام لوگ اس وقت وفاقی پولیس کے ملازم ہیں نہ ہی نادرا کے، کنٹریکٹ پر رکھے گئے ان ملازمین کے کنٹریکٹ میں اب تک توسیع بھی نہیں کی جاسکی ہے۔