اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے سانحہ اے پی ایس کیس کے ذمہ داروں اور غفلت کے مرتکب افراد کیخلاف کارروائی کی یقین دہانی کرا دی۔ عدالت نے پیش رفت رپورٹ وزیراعظم کے دستخط کے ساتھ چار ہفتے میں جمع کرانے کی ہدایت کر دی۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سانحہ اے پی ایس از خود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ وزیراعظم عمران خان عدالتی حکم پر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ وفاقی حکومت شہداء کے والدین کا موقف بھی سنے، جس کی بھی غفلت ثابت ہو اس کیخلاف کارروائی کی جائے، تعین کیا جائے کہ کس کی کیا کوتاہی تھی، حکومت دو ہفتوں کے اندر رپورٹ جمع کروائے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت آسان تھا کہ نواز شریف اور چوہدری نثار کیخلاف مقدمہ درج کروا دیتے۔ اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ سے مزید وقت کی استدعا کی جس پر عدالت نے اٹارنی جنرل کی استدعا قبول کرتے ہوئے 4 ہفتے کا وقت دے دیا۔
سماعت کے دوران عدالت نے استفسار کیا جی بتائیں خان صاحب، اب تک کیا کارروائی ہوئی ؟ جس پر وزیراعظم نے کہا کہ سانحہ آرمی پبلک اسکول بہت دردناک تھا، سانحہ کی رات ہم نے اپنی پارٹی کا اجلاس بلایا، 2014 میں جب سانحہ ہوا خیبرپختونخوا میں ہماری حکومت تھی۔ جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ والدین چاہتے ہیں اس وقت کے اعلیٰ حکام کیخلاف کارروائی ہو۔
چیف جسٹس گلزار احمد نے آئین کی کتاب اٹھالی اور ریمارکس دیئے کہ یہ آئین کی کتاب ہے اور ہر شہری کو سکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ مشرف دور میں مخالفت کی تھی کہ امریکی جنگ میں نہیں کودنا چاہیئے، ہم نے 80 ہزار جانوں کی قربانیاں دی ہیں، اے پی ایس سانحہ کے بعد نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا، عوام شدید صدمہ میں تھی، عوام دہشتگردی کیخلاف جنگ میں فوج کے پشت پر کھڑی تھی۔
ججز نے ریمارکس دیئے کہ آپ ہمارے وزیراعظم ہیں، ہمارے لیے قابل احترام ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ملک میں اتنا بڑا انٹیلی جنس سسٹم ہے، ہمیں آپ کے پالیسی فیصلوں سے کوئی سروکار نہیں، اس پر وزیراعظم نے کہا کہ آپ حکم کریں، ہم ایکشن لیں گے۔ عدالت نے کہا کہ آپ کیس کے معاملہ پر بات کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں آپ کو سیاق و سباق کے حوالے سے بتانا چاہتا ہوں، جب یہ واقعہ ہوا تو فوری پشاور پہنچا۔ عدالت نے کہا کہ اب تو آپ اقتدار میں ہیں، مجرموں کو کٹہرے میں لانے کیلئے کیا کیا ؟ جسٹس قاضی امین نے کہا کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق آپ تو ان لوگوں سے مذاکرات کر رہے ہیں ؟ اس پر وزیراعظم نے کہا کہ میں قانون کی حکمرانی پر یقین رکھتا ہوں، ملک میں کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں۔
عدالت نے استفسار کیا وزیراعظم صاحب ! آپ متاثرہ بچوں کے والدین سے ملے ؟ آپ ان کو پرسہ دیں، ان کی تسلی کرائیں، شکایات دور کریں۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں بچوں کے والدین سے کئی بار ملا ہوں، بچوں کے والدین کو اللہ صبر دے گا، ہم معاوضے کے علاوہ کیا کر سکتے تھے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ والدین کو ازالہ نہیں، اپنے بچے چاہیئے تھے، 20 اکتوبر کا ہمارا حکم ہے کہ ذمہ داروں کا تعین کر کے کارروائی کریں۔
وقفہ سماعت سے قبل چیف جسٹس نے استفسار کیا وزیراعظم نے عدالتی حکم پڑھا ہے ؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کو عدالتی حکم نہیں بھیجا تھا، وزیراعظم کو عدالتی حکم سے آگاہ کروں گا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب یہ سنجیدگی کا عالم ہے ؟ وزیراعظم کو بلائیں ان سے خود بات کرینگے، ایسے نہیں چلے گا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہم اپنی تمام غلطیاں قبول کرتے ہیں، اعلی حکام کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی، دفتر چھوڑ دوں گا، کسی کا دفاع نہیں کروں گا۔ عدالت نے کہا کہ اے پی ایس واقعہ سیکیورٹی کی ناکامی تھی، یہ ممکن نہیں کہ دہشتگردوں کو اندر سے سپورٹ نہ ملی ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنے لوگوں کے تحفظ کی بات آئے تو انٹیلی جنس کہاں چلی جاتی ہے؟۔
دوران سماعت عدالت میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا بھی تذکرہ ہوا۔ جسٹس قاضی امین نے ریمارکس دیئے کہ اطلاعات ہیں کہ ریاست کسی گروہ سے مذاکرات کر رہی ہے، کیا اصل ملزمان تک پہنچنا اور پکڑنا ریاست کا کام نہیں ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ بچوں کو سکولوں میں مرنے کیلئے نہیں چھوڑ سکتے، چوکیدار اور سپاہیوں کیخلاف کارروائی کر دی گئی، اصل میں تو کارروائی اوپر سے شروع ہونی چاہیے تھی، اوپر والے تنخواہیں اور مراعات لیکر چلتے بنے۔