لاہور: (دنیا نیوز) عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے ایک ارب ڈالر سے زائد کی قسط لینے کے لیے وفاقی حکومت نے منی بجٹ کو پرسوں (بدھ کو) قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
دنیا نیوز کے پروگرام ’دنیا کامران خان کے ساتھ‘ میں سینئر صحافی کامران خان کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ منی بجٹ کوپرسوں اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، کابینہ کی منظوری کے بعد منی بل کوقومی اسمبلی میں پیش کریں گے، آئی ایم ایف پروگرام میں ہیں، عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط واضح ہو جائیں گی۔
منی بجٹ سے متعلق اپوزیشن کے احتجاج سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جب بجٹ پیش ہونا ہوتا ہے تو حزب اختلاف ایسی باتیں کرتی ہے، جب بھی کوئی اہم قانون سازی آتی ہے تو اپوزیشن نے چورن بیچنا ہوتا ہے، اگر ان کے پاس آئی ایم ایف کے علاوہ کوئی آپشن ہے تو بتائیں، زرداری، نوازشریف کے پیدا کردہ مسائل کی وجہ سے آئی ایم ایف جانا پڑا۔
فواد چودھری کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کواس وقت مہنگائی کا سامنا ہے، مہنگائی کا دباؤحکومتوں پرہے، آج ہماری معیشت 5 فیصد پر گروتھ کررہی ہے، تقریبا 1 ہزار ارب سے زائد بڑی کمپنیوں نے کمایا ہے، تنخواہ دار طبقے کے لیے مہنگائی ہے لیکن عمومی طورپرحالات اتنے برے نہیں۔ الیکشن مہنگائی کی وجہ نہیں سیاست میں کوتاہیوں کی وجہ سے ہارے، تنخواہ دارطبقے پر عالمی مہنگائی کا دباؤ ہے، دیہات کے لوگوں کے لیے مہنگائی نہیں ہے، کپاس 44 فیصد زیادہ پیداوارہوئی، پاکستان آج سے تین سال والی پوزیشن سے بہت بہترہے، معیشت درست سمت میں گامزن ہے، تنخواہ دارطبقے کی تنخواہیں بڑھنی چاہیے، اتنی مایوسی نہیں جتنی میڈیا پربتائی جاتی ہے۔ ٹریکٹر،موٹرسایئکل، کاروں کی فروخت میں دگنا اضافہ ہوا۔
وفاقی وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو کل نہیں آج واپس آنا چاہیے، اگر کوئی موٹرسایئکل چوری کرتا ہے تو پوری فیملی کو جیل ڈال دیا جاتا ہے، شہبازشریف نے بھائی کی گارنٹی دی، لاہورہائی کورٹ کو لیگی صدر کو گارنٹی دینے پر جیل میں ڈالنا چاہیے، انہیں کل جیل میں بھیجا جانا چاہیے، نوازشریف لندن میں خوشیاں منا رہے ہیں۔ نوازشریف پاکستان کا پیسہ لوٹ کرلندن بیٹھے ہیں، سابق وزیراعظم برطانیہ میں روزانہ کسی نئے ریسٹورنٹ میں بیٹھ کرمنہ چڑارہے ہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں جو فیصلہ قائد ن لیگ کیس میں دیا گیا، پاکستان سے درد رکھنے والے لوگوں کا انہیں دیکھ کر دل دکھتا ہے، وہ کبھی ریسٹورنٹ میں کھانا کبھی کسی کلب میں جارہے ہوتے ہیں۔
حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں کے درمیان تعلقات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ تعلقات آج سے 3 سال پہلے والی پوزیشن پر ہے۔