لاہور: (ویب ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریکوڈک کے لیے تمام اخراجات وفاقی حکومت اٹھائے گی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان میں وزیراعظم نے کہا کہ چھوٹے صوبوں کو آگے لانے کے میری حکومت کے وژن کے تحت میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ریکوڈک اور اس کی ڈویلپمنٹ پر آنے والے اخراجات بلوچستان حکومت نہیں بلکہ وفاق برداشت کرے گا۔ اس سے صوبہ بلوچستان کے لوگوں کیلئے خوشحالی کے نئے باب کے آغاز میں مدد ملے گی۔
In line with my govt s vision for uplift of smaller provinces, I have decided our fed govt will bear all the financial burden for Reko Diq & it s development on behalf of Govt of Balochistan. This will help usher in an era of prosperity for the people & province of Balochistan.
— Imran Khan (@ImranKhanPTI) December 29, 2021
دوسری طرف وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبد القدوس بزنجو نے بھی ٹویٹر ریکو ڈک منصوبے کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے ریکوڈک منصوبے میں بلوچستان کا مالی بوجھ اٹھانے کا اعلان تاریخی ہے۔ ہم اس پیشرفت پر عمران خان کے مشکور ہیں۔ یہ فیصلہ بلوچستان کے عوام کے لیے امن خوشحالی اور استحکام کا آغاز ثابت ہو گا۔
خیال رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے جنوری 2013ء میں ریکوڈک کے ذخائر استعمال کرنے کے آسٹریلوی کمپنی ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) اور بلوچستان حکومت کے معاہدے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالت نے قرار دیا تھا کہ جولائی 1993ء میں ہونے والا یہ معاہدہ ملکی قوانین کے خلاف ہے اور اس کے بعد اس میں کی گئی تمام بھی ترامیم غیر قانونی اور معاہدے کے منافی ہیں۔
2011 میں نواب اسلم رئیسانی کی حکومت نے کمپنی کی جانب سے کان کنی کے لیے لائسنس کی درخواست مسترد کی تھی۔ بلوچستان حکومت اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے خلاف ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے جنوری 2012ء میں ورلڈ بینک گروپ کے انٹرنیشنل سینٹر برائے سیٹلمنٹ آف انویسٹمنٹ ڈسپیوٹس (آئی سی ایس آئی ڈی) سے رجوع کیا۔
سرمایہ کاری سے متعلق اس عالمی ثالثی عدالت نے 7 سال بعد فیصلہ سناتے ہوئے جولائی 2019ء میں پاکستان پر تقریبا 6 ارب ڈالر جرمانہ عائد کیا جو ملکی مجموعی قومی پیداوار کے دو فیصد کے برابر رقم ہے۔ اس کے فوری بعد ٹی سی سی نے اس فیصلے کے نفاذ کے لیے کارروائی شروع کردی تھی اور برٹش ورجن آئی لینڈ کی عدالت نے دسمبر 2020 میں پی آئی اے کے نیویارک اور پیرس میں ہوٹل سمیت پاکستانی اثاثوں کو منجمد کرنے کا حکم دیا تاہم بعد میں یہ فیصلہ منسوخ ہوا اور پاکستان نے عالمی عدالت سے مئی 2021 تک مشروط حکم امتناع بھی حاصل کر لیا۔
گزشتہ کئی ماہ سے ٹیتھیان کاپر کمپنی اور پاکستانی حکومت کے درمیان عدالت سے باہر معاملات طے کرنے کی کوششوں کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ تقریباً ایک ماہ قبل 30 نومبر کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں اراکین نے قرارداد کے ذریعے ریکوڈک سے متعلق نئے مجوزہ معاہدے پر بلوچستان اسمبلی کو اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا۔
ریکوڈک منصوبہ کیا ہے؟
ریکوڈک ایران اور افغانستان کی سرحد کے قریب بلوچستان کے ضلع چاغی کے علاقے نوکنڈی میں ٹیتھیان کی اراضیاتی پٹی پر واقع ہے۔ یہ پاکستان میں سونے، چاندی اور تانبے کا سب سے بڑا ذخیرہ مانا جاتا ہے اور اس کا شمار دنیا کے چند بڑے قیمتی زیر زمین ذخائر میں ہوتا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق ریکوڈک میں ایک کروڑ 30 لاکھ ٹن تانبے کے ذخائر اور دو کروڑ 30 لاکھ اونس سونا موجود ہے۔
ٹھیتان کاپر کمپنی کی ایک رپورٹ کے مطابق ریکوڈک کا اقتصادی طور پر قابلِ کان کن حصہ 2.2 ارب ٹن جبکہ ایک دوسری رپورٹ کے مطابق چار ارب ٹن سے زائد ہے، جس میں اوسطاً تانبا 0.53 فیصد ہے جبکہ سونے کی مقدار 0.3 گرام فی ٹن ہے۔ اس منصوبے کی کل عمر کا تخمینہ 56 سال لگایا گیا ہے۔
کمپنی نے ان قیمتی دھاتوں کے ذخائر کی کل مالیت کا تخمینہ ایک سو ارب ڈالر لگایا تھا تاہم امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ کمپنی نے ذخائر کا تخمینہ کئی گنا کم ظاہر کیا ہے۔ ان کے بقول جیالوجیکل سروے آف پاکستان اور پاکستانی جوہری سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ریکوڈک میں 600 کلومیٹر رقبے پر پھیلے ذخائر کی مالیت ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد ہے۔
ریکوڈک معاہدے پر تنازع کیا ہے؟
1993 میں بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور بروکن ہلز پروپرائیٹری (پی ایچ پی) نامی امریکی کمپنی کے مابین چاغی ہلز ایکسپلوریشن جوائنٹ وینچر ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ بی ایچ پی نے معدنیات کی کھوج کے لیے لائسنس حاصل کر کے کم گہری کھدائی پر ہی سونے اور تانبے کے ذخائر دریافت کر لیے۔
چاغی ہلز ایکسپلوریشن معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے سال 2000 میں منکور ریسورسز نامی کمپنی کو منصوبے میں شامل کیا۔ بعد میں تمام شیئرز ٹیتھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) نے خرید کر اس کمپنی کی ملکیت حاصل کر لی۔
ٹیتھیان کاپر کمپنی دراصل دنیا میں کانکنی کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک کینیڈا کے بیرک گولڈ اور چلی کے اینٹوفاگاسٹا منرلز پر مشتمل کنسورشیم کی مشترکہ ملکیت ہے۔