اسلام آباد:(دنیا نیوز)وزیراعظم نے پاکستان کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کا اجراء کر دیا جس میں اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ مادر وطن کا دفاع ہر سطح پر ناگزیر، جنگ مسلط کی گئی تو بھر پور جواب دیا جائے گا، دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب پر توجہ مرکوز، جعلی اطلاعات اور اثر انداز ہونے والے بیرونی آپریشنز کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جائے گا، اطلاعات، سائبراور ڈیٹا سکیورٹی ترجیح اور نگرانی کیلئے استعداد بڑھائی جائے گی ۔
قومی سلامتی پالیسی میں اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا ہےکہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا، روایتی صلاحیت میں اضافے کیساتھ ملکی دفاع کے لیے کم سے کم جوہری صلاحیت کو برقرار رکھا جائے گا جبکہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی سلامتی پالیسی کو زبر دست اقدام قرار دیا ہے۔
سلامتی پالیسی میں کہا گیا ہے کہ دشمن کی جانب سے طاقت کے استعمال کے ممکنہ خطرات موجود ہیں، کوئی بھی مہم جوئی ہوئی تو پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا، خود انحصاری پالیسی کے تحت دفاع کے لیے جدید دفاعی ٹیکنالوجی حاصل کی جائے گی اور مسلح افواج کو مزید مضبوط بنانے کے لیے روایتی استعداد کار میں بھی اضافہ کیاجائے گا۔
اس حوالے سے دفاعی پیدوار ،مواصلاتی نیٹ ورک اور الیکٹرانک وارفیئر صلاحیت کوبھی بڑھایاجائےگا اور ملکی دفاع کے لیے کم سے کم جوہری صلاحیت کو برقرار رکھا جائے گا۔
قومی سلامتی پالیسی میں واضح کیا گیا ہےکہ ایوی ایشن اورسکیورٹی پروٹوکول میں بہتری کیساتھ بحری نگرانی کو بھی مزید موثر بنایاجائے گا، مواصلاتی نظام، کمانڈ اینڈ کنٹرول نظام کو وسعت دی جائے گی اورلائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھی توجہ مرکوز رکھی جائے گی۔ دہشتگردی کے مکمل خاتمے کے لئے مغربی سرحد پر باڑ کی تنصیب اور قبائلی اضلاع کی ترقی کو بھی ترجیح حاصل ہوگی ۔
پالیسی میں اس عزم کا بھی اعادہ کیا گیا کہ مستقبل کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے خلائی سائنس و ٹیکنالوجی میں وسعت لائی جائے گی جبکہ سائبر و ڈیٹا کی سکیورٹی اورسرکاری امور کی رازداری کو بھی کویقینی بنایا جائے گا۔ داخلی سلامتی کے لیے نیم فوجی دستوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جدید خطوط پر تربیت کی جائے گی۔
مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے: وزیراعظم عمران خان
وزیراعظم نے کہا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی میں نیشنل سکیورٹی کو صحیح معنوں میں واضح کیا گیا، بڑی محنت سے متفقہ قومی دستاویز تیار کی گئی، کوشش ہے عوام اور ریاست ایک راستے پر چلیں، مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، ماضی میں ملک کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا گیا۔
قومی سلامتی پالیسی پبلک کرنے کی تقریب سے وزیراعظم عمران خان کا خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ نیشنل سکیورٹی ڈویژن کو پالیسی بنانے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں، پالیسی میں نیشنل سکیورٹی کو درست طریقے سے واضح کیا گیا ہے، ملک کو محفوظ بنانے پر مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ہمارے پاس تربیت یافتہ فوج موجود ہے، کوشش ہے ریاست اور عوام ایک راستے پر چلیں، ملک کی معیشت کمزور ہوگی تو دفاع بھی کمزور ہوگا، مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے، آئی ایم ایف کی شرائط ماننا پڑتی ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کی وجہ سے لوگوں پر بوجھ ڈالنا پڑتا ہے، آئی ایم ایف سب سے سستے قرض دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر فلاحی ریاست اپنے کمزور طبقے کی ذمہ داری لیتی ہے، ہماری ترجیح سب سے پہلے کمزور طبقے کو تحفظ دینا ہے، صحت کارڈ کے ذریعے ہم نے ہر خاندان کو تحفظ دیا، جن صوبوں میں ہماری حکومت ہے وہاں ہیلتھ انشورنس فراہم کر رہے ہیں، سوائے سندھ کے تمام صوبوں میں صحت کارڈ دیا جا رہا ہے، ماضی میں بینک گھر بنانے کیلئے عام آدمی کو قرض نہیں دیتا تھا۔
وزیراعظم سے آرمی چیف کی ون آن ون ملاقات، ملکی سکیورٹی صورتحال پر بات چیت
وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف کی ون آن ون ملاقات ہوئی، جس میں ملک کی سکیورٹی اور افغانستان کی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔
ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات ہوئی جس میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک تھے۔ ملاقات کے بعد وزیراعظم کی زیر صدارت افغانستان کی صورتحال پر ایپیکس کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا جس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دیگر عسکری حکام شریک ہوئے۔ وفاقی وزراء بھی اجلاس میں موجود تھے۔ افغانستان کی صورتحال پر تفصیلی طور ہر بات چیت کی گئی۔
قومی سلامتی پالیسی اجرا کی تقریب کے بعدآرمی چیف نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا کہ ملٹری سکیورٹی قومی سلامتی کا صرف ایک پہلو ہے، قومی سلامتی کے تمام پہلوؤں پر مشتمل جامع پالیسی کی تشکیل زبردست اقدام ہے، یہ دستاویز قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بنانے میں مددگار ہو گی۔