تشدد سے جاں بحق ایم کیو ایم کارکن سپرد خاک، نمازِ جنازہ میں اہم رہنماؤں کی شرکت

Published On 27 January,2022 04:55 pm

کراچی: (دنیا نیوز) کراچی میں سندھ بلدیاتی قانون کیخلاف گزشتہ روز احتجاج کے دوران متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے جوائنٹ آرگنائزر اسلم کو سپرد خاک کر دیا۔

ایم کیو ایم کے کارکن محمد اسلم کی نماز جنازہ میں سربراہ ایم کیو ایم پاکستان خالد مقبول صدیقی سمیت رابطہ کمیٹی،کارکنوں، مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کے وفد کے علاوہ شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔

 نماز جنازہ کراچی کے علاقے نصیر آباد شاہراہ ہاکستان پر ادا کی گئی، نماز جنازہ مولانا جمیل راٹھور نے پڑھائی ۔

اس موقع پر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی ، نماز جنازہ کے وقت واٹر پمپ سے عائشہ منزل تک جانے والا راستہ ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا جسے نماز جنازہ کے بعد کھول دیا گیا، محمداسلم کی تدفین شاہ محمد شاہ قبرستان میں کی گئی ۔ 

ہمارے کارکن کا پوسٹ مارٹم خاندان کی مرضی سے ہوسکتا تھا، خالد مقبول

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے کنوینئر خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے کارکن اسلم کا پوسٹ مارٹم خاندان کی مرضی سے ہوسکتا تھا، ریلی میں میری اپنی سانس تھوڑی دیر تک رک گئی تھی۔

محمد شاہ قبرستان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ جو شرپسندی کے لئے آئے گا کیا مائیں اور بچے لےکر آئے گا، ان کو 24 یا 26 دنوں کا دھرنا نظر نہیں آتا۔ حقیقی نمائندوں نے احتجاج کیا تو یہ لوگ کانپ گئے، تحریک پرُامن ہے، تشدد ہم نے نہیں ہم پر کیا گیا، حکومت اور ریاست پر اب گولی اور ڈنڈے مارنے کی ذمہ داری ہے۔

رہنما ایم کیو ایم نے کہا کہ یہ لاوارث نہیں پورے ملک کو پالنے والوں کی اولادیں ہیں، جتنا وقت اس شہر نے ظالموں کو دینا تھا دے دیا۔ کون سی اپوزیشن ہے جس کے کارکنان لاپتا اور دفاتر بند ہیں، یہ ریاستی دہشت گردی ہے۔

فاروق ستار:

ایم کیو ایم کے سابق رکن رکن اسمبلی فاروق ستار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کل ہماری ماؤں، بہنوں پرتشدد کیا گیا، مظلوم قومیتوں پراس سے برا وقت کبھی نہیں آیا۔ وزیراعلیٰ ہاؤس، ریڈ زون میں جانا ہے تو میں پہلے جاؤں گا، اگرانصاف نہیں ہوا تو لاوا پک رہا ہے وہ پھٹے گا، کالے قانون کوواپس لو ورنہ وزیراعلیٰ ہاؤس کا گھیراؤ ہو گا، سول نافرمانی اور جیل بھروتحریک بھی شروع ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کارکنوں پرتشدد کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔ ایم پی اے صداقت عباسی، بہنوں پرتشدد کی مذمت کرتا ہوں۔ پیپلزپارٹی، وزیراعلیٰ سندھ نے تمام حدوں کو پارکیا، متعصب پولیس کے ظالمانہ عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کرتا ہوں۔ ایک اورتحریکی ساتھی ہم سے چھینا گیا ہے، پاکستان بنانے والوں کی موجودہ نسل کے سپاہی کوچھینا گیا۔

کراچی میں پیپلز پارٹی کی ہم خیال اے این پی کا بھی بلدیاتی قانون کیخلاف احتجاج کا فیصلہ

سندھ میں بلدیاتی قانون کیخلاف ہونے والے احتجاج میں ایک اور پارٹی نے کودنے کا فیصلہ کر لیا۔ اے این پی نے احتجاجی مہم تیز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

دوسری طرف پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے، اے این پی نے کراچی میں احتجاجی سیاست، رابطہ عوامی مہم تیز کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، پیپلزپارٹی کی ہم خیال عوامی نیشنل پارٹی نے بھی سندھ کے ترمیمی بلدیاتی قانون کی مخالفت کردی۔

اے این پی نے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی ایکٹ کے خلاف احتجاج کا فیصلہ کیا ہے، پی پی رہنماؤں کی کوششوں کے باوجود عوامی نیشنل پارٹی نے سندھ کے بلدیاتی قانون کی حمایت سے انکار کر دیا ہے۔

اے این پی رہنما بلدیاتی قانون کے خلاف جماعت اسلامی کے جاری دھرنے میں آج شریک ہونگے۔
 

وزیراعظم نے ایم کیو ایم پاکستان کے احتجاج کے دوران پولیس تشدد کا نوٹس لے لیا

اُدھر وزیراعظم عمران خان نے سندھ پولیس کی جانب سے ایم کیو ایم کے بلدیاتی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد کا استعمال کرنے کے واقعے کا نوٹس لے لیا۔

ٹویٹر پر بیان میں وزیراعظم نے لکھا کہ سندھ پولیس کی جانب سے ایم کیو ایم کے پرامن احتجاجی مظاہرے کے دوران پولیس کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کا نوٹس لیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا مزید کہنا تھاکہ میں نے مظاہرین کے تشدد کے واقعے کی وزارت داخلہ، چیف سیکریٹری اور آئی جی سندھ پولیس سے مکمل رپورٹ طلب کرلی ہے۔ ان واقعات کی رپورٹس ملنے کے بعد پُرامن مظاہرین پر تشدد میں ملوث ذمے داروں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا وفاقی وزیر امین الحق کو فون

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے ایم کیو ایم کے رہنما اور وفاقی وزیر امین الحق کو ٹیلفون کر کے گزشتہ روز وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے پیش آنے والے واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔

اس موقع پر وزیراعلیٰ سندھ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات کسی صورت نہیں ہونے چاہئیں، سیاسی اختلافات کا حل بات چیت اور سیاسی طریقے سے حل کیا جانا چاہیے۔

بات چیت کے دوران وزیراعلیٰ سندھ اور امین الحق میں اتفاق ہوا کہ اس واقعے کو لسانیت کا رنگ نہیں دیا جائے گا، دونوں رہنماؤں کی جانب سے لسانیت کے حوالے سے بیانات کی مذمت بھی کی گئی۔

علاوہ ازیں واقعہ میں اگر کوئی جاں بحق ہوا ہے تو پوسٹ مارٹم کرانے پر بھی مشاورت کی گئی، وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ پوسٹ مارٹم کرنے سے موت کا جو بھی سبب ہوگا وہ سامنے آجائے گا۔

علاوہ ازیں وزیراعلیٰ نے گزشتہ روز کے واقعے میں زخمی ہونے والے متحدہ کے رکن صوبائی اسمبلی صداقت حسین کو بھی فون کر کے ان کی خیریت معلوم کی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ نے انسپکٹر جنرل( آئی جی) سندھ پولیس اور کمشنر کراچی کے ساتھ اجلاس کیا جس میں گزشتہ روز پیش آئے واقعے پر تفیصلی بات چیت کی۔

ترجمان وزیراعلیٰ کے جاری بیان کے مطابق مراد علی شاہ نے واقعے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے سیکریٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ اپنی سربراہی میں کمیٹی قائم کریں، انکوائری کمیٹی میں جس کے خلاف بھی زیادتی کے ثبوت ملے تو اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ شہر کا امن حکومت کی ذمہ داری ہے۔

ایم کیو ایم کے احتجاج کے دوران تشدد

واضح رہے کہ گزشتہ روز متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی جانب سے حکومت سندھ کے بلدیاتی قانون کے خلاف نکالی گئی ریلی پر وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے پولیس نے شیلنگ اور لاٹھی چارج کیا تھا، لاٹھی چارج کے دوران ایک کارکن جاں بحق جبکہ خواتین سمیت متعدد مظاہرین زخمی ہوگئے تھے، اور رکن صوبائی اسمبلی سمیت متعدد کارکنوں کو گرفتار کرلیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے خلاف ایم کیو ایم پاکستان آج یوم سیاہ منانے کا اعلان بھی کیا تھا۔

گزشتہ روز ایم کیو ایم نے شاہراہ فیصل سے اپنے احتجاج کا آٖغاز کیا اور مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ ہاوس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا تھا، مظاہرے میں پارٹی رہنماں، اراکین اسمبلی، خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

ایک سینئر پولیس اہکار نے بتایا کہ پولیس نے ایم کیو ایم قیادت سے مذاکرات کیے تھے اور ان کو ریڈ زون سے ہٹ کر کراچی پریس کلب کے سامنے جانے کا کہا تھا۔

اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ایم کیو ایم رہنماؤں نے ان کی بات ماننے سے انکار کردیا، جس کے بعد مجبور ہو کر پولیس نے مظاہرین کے خلاف ایکشن لیا اور لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

افسر کا مزید بتانا تھا کہ کئی لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا مگر صحیح تعداد معلوم نہیں ہے کیونکہ زیر حراست لوگوں کو مختلف تھانوں میں منتقل کیا گیا تھا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ایم پی اے صداقت حسین اور پولیس اہلکار سمیت 3 لوگوں کو طبی امداد کے لیے جناح ہسپتال لے جایا گیا تھا ۔

ایم کیو ایم پاکستان کا کہنا تھا کہ ان کا ایک کارکن محمد اسلم ہسپتال میں دوران علاج انتقال کرگیا ہے۔ پولیس نے ان کے اراکین اسمبلی اور خواتین پر آنسو گیس کی شیلنگ کی اور لاٹھی چارج کیا، جبکہ ایم کیو ایم کے کئی قانون سازوں اور کارکنوں کو نا معلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔

ایم کیو ایم نے سندھ حکومت کو فاشسٹ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ پولیس نے وزیراعلیٰ سندھ اور پی پی کی متعصب قیادت کی ایما پر ہمارے پر امن کارکنوں پر حملہ کیا۔

ایم کیو ایم پاکستان کے سینئر رہنما عامر خان نے ویراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے فوری طور پر مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

علاوہ ازیں اپوزیشن کی کئی جماعتوں نے ایم کیو ایم پاکستان کے خلاف پولیس کی کارروائی کی سخت مذمت کی جبکہ گورنر سندھ عمران اسماعیل نے ایم کیو ایم کے احتجاج کے دوران پولیس کے ایکشن کو بربریت قرار دیاہے۔

Advertisement