اسلام آباد:(دنیا نیوز) تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ سے قبل اسلام آباد میں جلسے روکنے کے معاملے پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی آئینی درخواست پر سماعت، اٹارنی جنرل خالد جاوید اور آئی جی اسلام آباد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزار چاہتے ہیں قانون پر عملدرآمد کیا جائے، امید کرتے ہیں تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
اسلام آباد میں سیاسی صورتحال کے پیش نظر سپریم کورٹ میں سپریم کورٹ بار کی آئینی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے سماعت کی، اٹارنی جنرل خالد جاوید اور آئی جی اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے جبکہ سپریم کورٹ بار کے وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب سپریم کورٹ بار نے عدالت سے رجوع کیا ہے، بار ایسوسی ایشن چاہتی ہے کہ قانون پر عملدرآمد کیا جائے، آپ بھی عدالت سے رجوع کرنا چاہتے ہیں، امن عامہ اور آرٹیکل 95 کی عملداری چاہتی ہے۔
اٹارنی جنرل کی جانب سے جواب دیا گیا کہ آرٹیکل 63 اے پر صدارتی ریفرنس پیر تک دائر کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ از خود کارروائی نہیں ہے، ہمارے پاس درخواست پہلے آ چکی ہے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آزادی رائے اور احتجاج کے حق پر کیا کہیں گے؟ کل والے واقعے پر کیا کہں گے؟ جس پر جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ واقعہ آزادی رائے اور احتجاج کے خلاف تھا، قانون کی خلاف ورزی کا کوئی جواز نہیں، کل کے واقعے کا پس منظر بتانا چاہتا ہوں، آئی جی اسلام آباد اور ایڈ یشنل سیکرٹری داخلہ بھی موجود ہیں۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ امید کرتے ہیں تمام سیاسی فریقین تحمل کا مظاہرہ کریں گے، عدالت آرٹیکل 63 اے پر رائے نہیں چاہتی، اس پر صدارتی ر یفرنس پر درخواست کی سماعت کریں گے۔
خالد جاوید خان کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس کے معاملے پر سپریم کورٹ بار کی درخواست کا تعلق نہیں ہے، پارلیمنٹیرین اور سپریم کورٹ بار کا بہت احترام ہے، سو احتجاج کرنے والوں کو پولیس نے سندھ ہاؤس سے منتشر کیا، اسکے بعد 20 لوگ سندھ ہاؤس احتجاج کرنے آگئے، 13 لوگوں کو سندھ ہاؤس پر حملہ کرنے پر گرفتار کیا، تھانہ سیکرٹریٹ میں مقدمہ درج کر لیا گیا، آج مجسٹریٹ نے 13 مظاہرین کو رہا کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو کچھ ہو رہا ہے ہمیں اس سے مطلب نہیں، آئین کی عملداری کیلئے یہاں بیٹھے ہیں، کیا پبلک پراپرٹی پر دھاوا بولنا بھی قابل ضمانت جرم ہے، سیاسی عمل آئین و قانون کے تحت ہونا چاہیے، پبلک پراپرٹی اور قومی اداروں کو دھمکیاں ملی، ارکان اور اداروں کو تحفظ آئین کے مطابق ملنا چاہیے۔
سپریم کورٹ بار کی آئینی درخواست پر سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی ہے۔