اسلام آباد: (دنیا نیوز) وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ خود داری ایک آزاد قوم کی نشانی ہوتی ہے۔ پاکستان کے لیے فیصلہ کن وقت ہے۔ میں کسی کے سامنے جھکا اور نہ اپنی قوم کو جھکنے دوں گا۔ دھمکی آمیز خط لکھنے والوں کو تحریک عدم اعتماد کا پہلے سے علم تھا، تھری سٹوجز کے ان لوگوں سے رابطے تھے۔ کسی صورت استعفیٰ نہیں دو ںگا۔ اتوار کو عدم اعتماد پر ووٹنگ میں ملکی سمت کا فیصلہ ہوگا۔جو بھی فیصلہ ہو گا طاقتور ہو کر واپس آؤں گا۔
قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ہم زمین پر چیونٹیوں کی رینگ رہے ہیں، میں نے ہمیشہ کہا تھا نہ میں کبھی کسی کے سامنے جھکوں گا اور نہ کسی کے سامنے جھکنے دوں گا۔ 25 سال سے یہی میرا موقف تھا، جب اقتدار مجھے ملا تو فیصلہ کیا خارجہ پالیسی آزاد ہو گی، خارجہ پالیسی پاکستانیوں کے لیے ہو گی۔ اس کا مقصد کسی کا ساتھ دینا نہیں تھا۔ میں بھارت، امریکا اور برطانیہ کو بہت اچھی طرح جانتا ہوں، بھارت میں بہت کرکٹ کھیلی، امریکا میں سیاستدان میرے بہت دوست ہیں جبکہ برطانیہ میں میری ابتدائی زندگی گزری۔ پرویز مشرف دور میں مجھ سمیت تمام سیاستدانوں کو بریفنگ دی جس میں کہا گیا تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں نہ گئے تو امریکا ہمیں پتھر کے دور میں بھیج دے گا لیکن میں نے اس وقت بھی اس جنگ کے خلاف بیان دیا تھا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کیا ہم اپنے لوگوں کو قربان کروائیں۔ 80ء کی دہائی میں ساری جہاد قبائلی علاقوں میں لڑی گئی۔ ہمیں بتایا گیا افغانستان میں غیر ملکی قبضہ ہو رہا ہے جس کے لیے ہم انہیں بچانا چاہتے ہیں، جنگ ہارنے کے بعد امریکا نے ہم پر پابندیاں لگا دیں۔ اس دوران پاکستانیوں نے بہت قربانیاں دیں، اس دوران کسی بھی ملک نے اتنی قربانیاں نہیں دیں۔ قبائلی علاقہ پاکستان میں سب سے زیادہ پر امن علاقہ تھا، وہاں پر جرائم نہیں ہوتے تھے، وہاں پر دہشتگردی کیخلاف جنگ شروع کی گئی، ہمارے لوگ مارے گئے۔ ہمارے لوگوں نے جہاد سمجھ کر پاکستان کیخلاف جنگ لڑنا شروع کر دی۔ پرانا جہادی بھی پاکستان کیخلاف ہو گئے۔ نائن الیون میں کوئی پاکستانی شامل تھا۔ ہمیں کہا گیا کہ پاکستان کی دوغلی پالیسی کی وجہ سے امریکا افغانستان نہیں جیت پا رہا، ڈرون اٹیک ہوئے بہت نقصان ہوا، باجوڑ میں مدرسے کے بچوں پر ڈرون اٹیک ہوئے جس میں 80 بچے شہید ہوئے، دیگر علاقوں میں شادیوں پر بھی ڈرون حملے کیے گئے۔ میں جب کہتا تھا یہ جنگ ہماری نہیں تو لوگ مجھے طالبان خان کہتے تھے، میں نے وزیرستان مارچ کیے، امریکا سمیت باہر سے لوگوں نے میرے مارچ کی حمایت کی۔ ہماری حکومتوں نے امریکا کا ساتھ دیا جس کے باعث وہ ہم پر حملہ کرتے تھے، مجھے حکومت ملی تو میں نے پہلے دن کہا تھا پاکستان کی پالیسی عوام کے مفاد میں ہو گی اور یہ پالیسی آزاد ہو گی۔ میری پالیسی، بھارت سمیت کسی کے خلاف نہیں۔
وزیراعظم نے مراسلے والے ملک کا ذکر کرتے ہوئے امریکا نام لے لیا
عمران خان نے قوم سے براہ راست خطاب کیا اور اس دوران انہوں نے خارجہ پالیسی پر بات کی۔
وزیراعظم عمران خان نے میں آج آپ کے پاس یہ ساری بات کرنے کے لیے اس لیے آیا ہوں کہ ابھی ہمیں 8 مارچ یا اس سے پہلے 7 مارچ کو ہمیں امریکا نے امریکا نہیں باہر سے ملک سے مطلب کسی اور ملک سے پیغام آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں اس لیے پیغام کی بات کر رہا ہوں اور اسی لیے براہ راست کر رہا ہوں، یہ ایک کسی آزاد ملک کے لیے جس طرح کا ہمیں پیغام آیا ہے، یہ ہے تو وزیراعظم کے خلاف ہے لیکن یہ ہماری قوم کے خلاف ہے۔
میرے ملک کا سودا کیا جا رہا ہے
عدم اعتماد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ تحریک جمع کروانے سے قبل ہمیں پتہ چل گیا تھا، ایک ملک کی طرف سے کہا گیا عدم اعتماد کامیاب ہو جاتی ہے تو پاکستان کو معاف کر دیتے ہیں۔ اگر یہ فیل ہو جاتی ہے یا وزیراعظم عمران خان کی حکومت برقرار رہتی ہے تو پاکستان کو ایک مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میرا پاکستانیو سے سوال ہے کوئی باہر کا ملک ہمارا فیصلہ کرے گا۔ تھری سٹوجز خط لکھنے والے ملک کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ میرے ملک کا سودا کیا جا رہا ہے، میں اپنے لوگوں کو کہتا ہوں ہمیشہ کے لیے آپ کے اوپر مہر لگنی لگی ہے، لوگ آپ کو معاف نہیں کریں گے، اتوار کو جو غداری ہونے جا رہی ہے، میں چاہتا ہوں لوگ ایک ایک کے چہرے کو یاد رکھیں، ہینڈل کرنے والوں کو بھی لوگ معاف نہیں کریں گے۔ بیرونی سازش کے تحت آپ نے ہماری حکومت گرائی۔
نیشنل سکیورٹی کی کمیٹی میں اپوزیشن والے کیوں نہیں آئے
خط کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کی کمیٹی میں یہ خط رکھا گیا، اپوزیشن والے کیوں نہیں آئے، مجھے کہا گیا کہ یہ جعلی ہے، میں نے ٹاپ فورم پر یہ معاملہ رکھا، نیشنل سکیورٹی کی میٹنگ میں سروسز چیفس کے سامنے رکھے، پارلیمنٹ کی میٹنگ میں لے کر گیا، سینئر صحافیوں کو بھی اس کے بارے میں آگاہ کیا۔ عوام کو اُکسا نہیں رہا، جو چیزیں ہیں وہ عوام کو نہیں بتا رہا۔ وہ بہت خوفناک ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جن کے اوپر اربوں روپے اور نیب کے کیسز ہوں کیا ان کو ملک کا اقتدار دیں گے۔ جنرل (ر) مشرف کے دور میں انہوں نے اپنا قرض معاف کروائے، باہر کے ممالک والوں کو پتہ ہے ملکی رہنماؤں کے پیسے کہاں پڑے ہیں۔ باہر کے ملک والوں کو ان کی کیا خاصیت ہے جو انہیں پسند ہے ، پرویز مشرف کے دور میں 11 ڈورن حملے ہوئے، مسلم لیگ ن اور پی پی کے دور میں چارسو ڈرون اٹیک ہوئے۔ یہاں کوئی مذمت نہیں ہوتی تھی، افغانستان میں جب ڈرون ہوتے تو افغانستان کے صدر حامد کرزئی مذمت کرتے تھے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے ساتھ بہت ذلت آمیز تعلق رکھا جاتا تھا۔
روس کا دورہ عسکری قیادت سے مشاورت کے بعد کیا
انہوں نے مزید کہا کہ اپنی 22 کروڑ کی قوم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہماری یہی حیثیت ہے کہ ایک باہر کا ملک بغیر وجہ بتائے ایسا کرے جیسے روس جانے کا عمران خان نے اکیلے فیصلہ کیا ہو، حالانکہ روس جانے کا فیصلہ عسکری اور وزارت خارجہ سے مشاورت کے بعد ہوا، مگر اس میں لکھا ہوا کہ یہ صرف عمران خان کی وجہ سے گئے ہیں، جب تک وہ ہے ہمارے تعلقات اچھے نہیں ہوسکتے، دراصل وہ یہ کہہ رہے کہ ہمیں دیگر کسی سے کوئی مسئلہ نہیں، قوم کے سامنے یہ چیز رکھنا چاہتا ہوں کہ دیگر ممالک کے سربراہ بھی روس گئے لیکن ہمیں اس طرح کہا جارہا ہے جیسے ہم ان کے نوکر ہیں۔
مولانا فضل الرحمان سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ وکی لیکس میں لکھا ہے پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن سے ملاقات کر کے کہتے ہیں مجھے موقع دیں میں وہیں خدمات کروں گا جو باقی لوگ کرتے ہیں۔ برکھا دت نے کتاب میں لکھا نواز شریف ہندوستانی رہنماؤں سے نیپال میں ملاقات کرتا تھا۔ اس ملاقات میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو برا بھلا کہا گیا، میرے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو کوئی برا بھلا کہے تو میں بالکل برداشت نہیں کروں گا۔
شہباز شریف سے متعلق بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لیگی صدر کہتے ہیں میں نے ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر بہت بڑی غلطی کی، میں نے کہا تھا امن میں آپ کے ساتھ ہیں جنگ میں کسی کے ساتھ نہیں، افغانستان میں ڈرون اٹیک سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایبسلوٹلی ناٹ کہا تھا۔
یہ فیصلہ کن وقت ہے
ان کا کہنا تھا کہ میرے پاکستانیو میں نے آپ سے بہت اہم بات کرنی ہے، پاکستان میں یہ وقت فیصلہ کن وقت ہے، ہمارے پاس دو راستے ہیں، ہمارے پاس ہے کہ کونسے راستے پر جانا ہے۔، سیاستدانوں کی زندگی دیکھیں تو ان کو پہلے کوئی نہیں جانتا تھا، قائداعظم محمد علی جناحؒ بہت بڑے سیاستدان تھے، سارے ہندوستان میں سب سے بڑے وکیل سمجھے جاتے تھے، ان کی حیثیت تھی سیاستدان میں آنے کی، ہمارے ہاں سیاستدانوں کو ماضی میں کوئی نہیں جانتا تھا، مجھے اللہ نے سب کچھ دیا، شہرت دی، ضرورت سے زیادہ پیسہ دیا، لیکن میں پاکستان کی پہلی نسل تھا، پاکستان مجھ سے صرف پانچ سال بڑا ہے۔ میرے والدین غلامی کے دور میں پیدا ہوئے تھے، میرے والدین مجھے احساس دلاتے تھے کہ تم بہت خوش قسمت ہو۔ میرے ملک وہ ملک نہیں بن سکتا جس کا خواب قائداعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ نے دیکھا۔
عمران خان نے کہا کہ میں نے پچیس سال پہلے سیاست شروع کی تو تین چیزیں منشور میں رکھیں، انصاف، انسانیت میرے دو خواب تھے اور میرا تیسرا خواب خودداری تھا۔ پاکستان کا مطلب لا الہ اللہ تھا، اس کا مطلب کسی کے آگے جھک جانا شرک ہے۔ پیسے کی غلامی اور خوف کی غلامی شرک ہے۔ لا الہ اللہ انسان کو خوف سے آزاد کرتا ہے۔ میرے اندر ایمان نہ ہوتا تو میں سیاستدان میں نہ آتا۔ سیاست میں آنے سے پہلے 14 سال میرے ساتھ محض چند لوگ تھے، میں سیاست میں نظریہ کے لیے آیا تھا۔ ریاست مدینہ مسلمانوں کیلئے رول ماڈل ہے، طاقتور اور غریب کیلئے الگ الگ قانون ہو تو وہ قوم تباہ ہوجاتی ہے، ریاست مدینہ میں قانون کی حکمرانی تھی، جہاں انصاف نہ ہو وہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔