لَیْلَةُ الْقَدْرِ: اجر عظیم کی رات

Published On 28 April,2022 12:26 pm

لاہور: (مفتی محمد وقاص رفیع) رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف جیسی عظیم عبادت کے ساتھ اس کی طاق راتوں میں سے غیر معینہ طور پر کوئی ایک طاق رات ’’شبِ قدر‘‘ کی بھی ہوتی ہے، جس کے بے شمار فضائل و برکات قرآن و حدیث میں وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’ہم نے اس قرآن کو شب قدر میں نازل کیا، تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ایک ہزار راتوں سے بہتر ہے، اس دن فرشتے اور روح امین (حضرت جبرئیل ؑ) اپنے رب کی اجازت سے ہر حکیمانہ حکم لے کر نازل ہوتے ہیں، یہ سلامتی والی رات فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے‘‘(سورۃ القدر)۔

امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ قدر کا معنی مرتبہ کے ہیں،چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے، اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔ (تفسیر قرطبی: ج 20ص 130)

امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قابل قدر کتاب، قابل قدر امت کیلئے صاحبِ قدر رسولﷺ کی معرفت نازل فرمائی، یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر:ج 28 ص 32)

صاحب تفسیر خازن فرماتے ہیں کہ قدر کا معنی تنگی کا بھی آتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اسے قدر والی رات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (تفسیر خازن: ج 4، ص 395)

امام ابوبکر الوراقؒ فرماتے ہیں کہ ’’قدر‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ رات عبادت کرنے والے کو صاحب قدر بنا دیتی ہے، اگرچہ وہ پہلے اس لائق نہیں تھا۔(تفسیر قرطبی: ج 20 ص 131)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص شب قدر میں ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے قیام کرے گا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔(صحیح بخاری:35)

حضرت ابو سلمہؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے وہ رات دکھائی گئی تھی مگر پھر بھلا دیا گیا، لہٰذا اب تم اسے رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری:2016)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرو۔ (صحیح بخاری: 1913)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے، اور فرمایا کرتے تھے کہ شب قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔(صحیح بخاری:2020)

حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کو شب قدر کی تلاش کرنی ہو تو وہ آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔(صحیح بخاری: 2015)

حضرت زرؒ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابی بن کعب ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’اللہ کی قسم میں جانتا ہوں کہ وہ کون سی رات ہے جس میں حضورِ اقدس ﷺ نے قیام کرنے کا حکم دیا ہے، وہ رمضان المبارک کی ستائیسویں رات ہے۔ اس کی نشانی یہ ہے اس دن صبح کو سورج سفید ہوتا ہے اور اس میں شعاعیں نہیں ہوتیں۔ (صحیح مسلم: 762)

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمیں شب قدر کے بارے میں بتانے کے لئے نکلے اسی دوران دو مسلمان کسی معاملے میں آپس میں جھگڑ رہے تھے تو، آپــؐ نے ارشاد فرمایا، میں نکلا تھا کہ تم لوگوں کو شب قدر کے بارے میں بتاؤں مگر فلاں فلاں جھگڑنے لگے اور اس کا علم اٹھا لیا گیا،بھلادیا گیا۔ مجھے اْمید ہے کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہی ہے لہٰذا تم لوگ اس رات کواْنتیسویں،ستائیسویں اور پچیسویں رات میں تلاش کیا کرو۔(صحیح بخاری:2023)

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب آخری دس دنوں میں داخل ہوتے تو عبادت کیلئے کمر کس لیتے، خود بھی شب بیداری کرتے اور گھر والوں کو بھی جگاتے تھے۔ (صحیح بخاری: 2024)

حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسالت مآب ﷺ سے عرض کیا کہ شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہئے تو آپ ﷺنے اس دْعاء کی تلقین فرمائی:’’اے اللہ تو معاف کر دینے والا اور معافی کو پسند فرمانے والا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے۔ (مسند احمد بن حنبل: ج6ص 171، 182)

رمضان المبارک کے اخیر عشرہ میں اعتکاف بیٹھنے کا حقیقی مقصد شب قدر کی تلاش ہوتا ہے،علماء کا شب قدر کی تعین کے بارے میں اختلاف ہے، لیکن اکثریت کی رائے یہ ہی ہے کہ ستائیس رمضان المبارک کی رات ہی شب قدر ہوتی ہے۔ (تفسیرقرطبی: ج 20ص 134)

علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں کہ علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ طاق راتوں میں سے ستائیسویں ہے۔(روح المعانی: ج 30ص220)

حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابی بن کعب ؓ کی بھی یہی رائے ہے۔ حضرت زر بن جیش ؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ کا قول ہے کہ جو شخص پورا سال عبادت کرے گا،وہ شب قدر کو پا لے گا۔حضرت ابی بن کعب ؓ نے یہ سن کر فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ جانتے ہیں کہ شب قدر رمضان کی آخری راتوں میں سے ہے اور وہ ستائیسویں رات ہے لیکن آپؓ نے اس کا ذکر اس لئے کر دیا تاکہ لوگ فقط ان راتوں کو ہی نہ جاگیںبلکہ پورا سال عبادت کریں اور اس کے بعد حلف اٹھا کر کہا کہ وہ رات ستائیسویں ہی ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسالت مآب ﷺ نے جو اس کی علامت بیان فرمائی ہے،وہ اسی رات میں پائی جاتی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓفرماتے ہیں کہ ستائیس رمضان المبارک کی رات’’شب قدر‘‘ ہوتی ہے، ایک تو اس لئے کہ لفظ لیلۃ القدر کے 9 حروف ہیں اور اس کا تذکرہ تین دفعہ ہوا ہے اور مجموعہ 27 ہو گا۔ اور دوسرے اس لئے کہ سورۃ القدر کے کل 30 الفاظ ہیں، جن کے ذریعے شب قدر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے لیکن اس سورہ میں جس لفظ کے ساتھ اس رات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ’’ہی‘‘ ضمیر ہے اور یہ لفظ اس سورہ کا ستائیسواں لفظ ہے۔اور تیسرے اس لئے کہ اس سورۃ کے کل کلمات تیس ہیں (اور ان میں) لفظ ’’ہی‘‘ ستائیسواں کلمہ ہے۔(تفسیر کبیر:ج 23، ص30)

حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابن عباسؓ ؓسے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو طاق عدد پسند ہے اور طاق عددوں میں سے بھی سات کے عدد کو ترجیح حاصل ہے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کی تخلیق میں سات کے عدد کو نمایاں کیا ہے، مثلاً:سات آسمان، سات زمین، ہفتہ کے دن سات، طواف کے سات چکر وغیرہ۔ (تفسیر کبیر:ج 32ص30)

بہرحال یہ شب قدر کی تعین کے بارے میں علماء کا اپنا ایک محتاط اندازہ ہے، اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شب قدر کا تعین اْمت سے اْٹھایا ہوا ہے۔ اس لئے اس کے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی جاسکتی، حضور اقدس ﷺ سے 21، 23، 25، 27 ،29 رمضان کی سبھی راتوں کے بارے میں حدیثیں ملتی ہیں۔ محدثین کا کہنا ہے کہ یہ رات ہر سال تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ لہٰذا کسی ایک رات کو اپنی طرف سے شب قدر مان کر بقیہ طاق راتوں کو عبادت سے غافل رہنا انتہائی محرومی اور بد نصیبی کی بات ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس رات کو شب قدر مان رہے ہوں وہ اس کے علاوہ کسی اور رات میں ہو۔ جبکہ اخیر عشرہ کی تمام راتوں میں تلاش کرنے میں یہ خطرہ نہیں رہتا۔ غالباً اس رات کو پوشیدہ رکھنے کا مقصد بھی یہی ہو کہ بندہ زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکے۔

مفتی محمد وقاص معروف عالم دین اوررفیع اسلامک ریسرچ اسکالر ’’ الندوہ ‘‘ ایجوکیشنل ٹرسٹ اسلام آباد سے وابستہ ہیں
 

Advertisement