نزول قرآن: 'ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا' (القدر)

Published On 28 April,2022 12:15 pm

لاہور: (مولانا رضوان اللہ پشاوری) شب قدر کیا ہے؟ یہ در اصل ربِ کریم کی جانب سے انسانیت کیلئے مغفرت و نجات کی ایک عظیم الشان مبارک یادگار اور جلیل القدر رات ہے۔ آج سے تقریباً ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب دنیا ذلالت و ظلمت اور جہالت و معصیت کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی، سارا انسانی معاشرہ تباہی و بربادی کے قریب پہنچ چکا تھا۔ تب اللہ رب العزت نے انسانیت پر نظر رحمت فرمائی، اس کی رحمت کی گھٹائیں تمام عالم کے افق پرچھائیں، اس کا ابر کرم ’’حرا‘‘ کی سمت اترا۔ رحمت عالم ﷺ پرسب سے پہلی وحی میں تعلیم کی طرف توجہ دلائی گئی: فرمایا: اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ (العلق)، اس لیے کہ جب علم کی شمع روشن ہو گی تو خودبخود ذلالت کافور اور ظلمت دور ہو جائے گی۔ جہالت ختم ہو گی اور معصیت کے پردے چاک ہو جائیںگے۔

الغرض! انسانیت کی نجات و عافیت کا یہ عظیم الشان واقعہ نزولِ قرآن کی شکل میں رمضان کی شب قدر میں پیش آیا۔ جیسا کہ ارشاد فرمایا: ’’قرآن کا نزول رمضان میں ہوا‘‘(البقرہ)، دوسری جگہ فرمایا: ’’ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا‘‘( القدر)۔ اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ پورا قرآن لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر اس رات میں اتارا گیا۔ پھر وہاں سے حسب ضرورت قلب اطہر پر تھوڑا تھوڑا کر کے 23سال میں نازل ہوا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ پر سب سے پہلے قرآن کا نزول شب قدر میں ہوا۔ اس اعتبار سے شب قدر اس عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے جس میں انسانیت کو اوہام اور بت پرستی کی ذلت و غلامی نیز ظلم و زیادتی اور جہل و گمراہی سے نجات ملی۔ اس اعتبار سے شب قدر انسانیت کیلئے شب نجات تھی اور ہے۔

شب قدر کی عظمت : ’’بے شک ہم نے قرآن پاک کو شب قدر میں اتارا‘‘ یعنی قرآن شریف کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اس رات میں اتارا ہے یہی ایک بات اس رات کی فضیلت کیلئے کافی تھی کہ قرآن جیسی عظمت والی چیز اس میں نازل ہوئی۔ اس میں اور بھی بہت سی برکات و فضائل ہیں، ارشاد ربانی ہے : ْ’آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ شب قدر کیسی بڑی چیز ہے؟‘‘یعنی اس رات کی بڑائی اور فضیلت کا آ پ کو علم بھی ہے کہ کتنی خوبیاں اور کس قدر فضائل اس میں ہیں۔ اس کے بعد چند فضائل کا ذکر فرماتے ہیں: ’’شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے‘‘ یعنی ہزار مہینوں تک عبادت کرنے کا جس قدر ثواب ہے اس سے زیادہ شب قدر میں عبادت کرنے کا ثواب ہے اور اس زیادتی کا علم بھی نہیں کہ کتنی زیادہ ہے۔ ’’اس رات میں فرشتے اترتے ہیں‘‘۔ ’’اس رات میں روح القدس یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی نازل ہوتے ہیں‘‘۔

نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ شب قدر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتھ اترتے ہیں اور جس شخص کو ذکر وغیرہ میں مشغول دیکھتے ہیں اس کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔’’ اپنے پروردگار کے حکم سے ہر امر خیر کو لے کر زمین کی طرف اترتے ہیں‘‘۔

مظاہر حق میں لکھا ہے کہ اسی رات میں ملائکہ کی پیدائش ہوئی اور اسی رات میں حضرت آدم علیہ السلام کا مادہ جمع ہونا شروع ہوا، اسی رات میں جنت میں درخت لگائے گئے اور دعا وغیرہ کا قبول ہونا تو بکثرت روایات میں آیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اسی رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور اسی رات بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی۔ ٌ’’ وہ رات سراپا سلام ہے‘‘یعنی تمام رات فرشتوں کی طرف سے مومنین پر سلام ہوتا رہتا ہے کہ ایک فرشتوں کی فوج آتی ہے، دوسری جاتی ہے ْ ’’وہ رات (ان ہی برکات کے ساتھ) تمام رات طلوع فجر تک رہتی ہے یہ نہیں کہ رات کے کسی خاص حصہ میں یہ برکت ہو اور کسی میں نہ ہو بلکہ صبح ہونے تک ان برکات کا ظہور رہتا ہے۔ (فضائل رمضان المبارک، ص73، معارف القرآن، ص 197، جلد 8)

جس شخص نے شب قدر میں عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے پڑھ لی اس نے بھی اس رات کا ثواب پا لیا، اور جو شخص جتنا زیادہ کرے گا، زیادہ ثواب پائے گا۔ صحیح مسلم میں حضرت عثمان غنیؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر لی تو آدھی رات کے قیام کا ثواب پا لیا اور جس نے صبح کی نماز بھی جماعت سے ادا کر لی تو پوری رات جاگنے اور عبادت کرنے کا ثواب حاصل کر لیا۔ (معارف القرآن)
شب قدر کی قدر و منزلت: شب قدر نہایت ہی عظیم رات ہے، اس کی عظمت و فضیلت اور قدر و منزلت بڑھانے کیلئے حق تعالیٰ نے اس کے نام کی مستقل ایک سورت قرآن میں نازل فرمائی، جس میں اس کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے اسے ہزاروں مہینوں سے افضل فرمایا، یہی وجہ ہے کہ خود رحمت عالم ﷺ بھی اس شب میں خصوصی طور پر اللہ تعالیٰ کی یاد کیلئے بیدار رہتے، اور اپنے گھر والوں کو بھی اس کی ترغیب دلاتے، تا کہ اس کی فضیلت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا سکے۔ (مشکوٰۃ)

اس ایک رات میں عبادتِ خداوندی کے ذریعہ ہم قربِ الٰہی کی اتنی منزلیں اور مسافتیں طے کر سکتے ہیں کہ دوسری ہزاروں راتوں میں بھی طے نہیں ہو سکتیں، جس طرح تیز رفتار سواری (ہوائی جہاز یا راکٹ) کے ذریعہ ایک رات میں اتنی مسافت طے کی جاتی ہے کہ پرانے زمانے کی دوسری سواریوں سے مہینوں میں بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔

اسی لیے ہمارے حضرت شیخ الزماں مدظلہ فرماتے ہیں: شبِ قدر کی جو بھی قدر کرے گا وہ صاحب قدر ہو جائے گا۔ غرض شب قدر کی بڑی قدر و منزلت ہے، شاید اس کی عظمت اور قدر و منزلت ہی کی وجہ سے اسے ایک راز بنا کر رکھا ہے، جیسے اسم اعظم کو اس کی عظمت کی وجہ سے ایک راز بنا کر رکھا ہے۔ یا پھر اس لیے تا کہ لوگ ایک ہی رات پر تکیہ و بھروسہ نہ کر لیں، بلکہ اس کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ کوشش کریں۔ پھر جتنی راتیں طلب اور جستجو میں خرچ ہوں گی ان کا مستقل ثواب علیحدہ ملے گا۔ اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا: شاید شب قدر کی پوشیدگی تمہارے لیے بہتر ہو (بخاری، مشکوٰۃ)۔

ستائیس رمضان کو شب قدرکی تلاش :ویسے شب قدر کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے 418اقوال نقل فرمائے ہیں، جن میں قریب قریب یہ بات متفق علیہ ہے کہ شب قدرکی یقینی اور متعین تاریخ کسی کو معلوم نہیں، اس لیے یہ اقوال اندازہ اور تخمین کا درجہ رکھتے ہیں، اکثر اہل علم کا حدیث کے مطابق خیال یہی ہے کہ رمضان کے عشرئہ اخیرہ کی طاق راتوں میں شب قدر واقع ہوتی ہے ، اور زیادہ رجحان ستائیس کا ہے ، کیوںکہ متعدد روائتیں اس سلسلہ میں موجود ہیں ،مثلاًمسلم شریف میں ہے کہ حضرت ابی بن کعبؓ نے قسم کھائی (ظن غالب کی بنیاد پر) کہ بلاشبہ شب قدر ستائیسویں رات میں ہے ۔(مشکوٰۃ)

مولانا رضوان اللہ پشاوری، مدرس وناظم جامعہ دارالعلوم اسلامیہ اضاخیل ہیں
 

Advertisement