لاہور: (ڈاکٹر مدثر اقبال) نسل انسانی نے خود غرضی کا ایسا مظاہرہ کیا جس کی مثال ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔یہ دنیا جہاں ہم رہتے ہیں صرف انسانوں کا گھر نہیں ہے بلکہ کرۂ ارض پر رہنے والے تمام جانداروں کا گھر ہے لیکن انسانوں نے اپنی ترقی اور سہولت کیلئے اس دنیا کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ جدت کے نام پر ایسی ایسی ایجادات کی ہیں جس کے اثرات اب سامنے آرہے ہیں۔ درختوں کی کٹائی اور کنکریٹ کے جنگلوں نے دنیا کو آگ کا گولا بنا دیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اس خطے میں واقع ہے جس کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ خطرات لا حق ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میںدرجہ حرارت دنیا کے دیگر ممالک سے 10 سال پہلے بڑھ رہا ہے۔ موجودہ ہیٹ ویو میں پاکستان کا درجہ حرارت49ڈگری بھی ریکارڈ کیا گیا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان کے درجہ حرارت میں ڈیڑھ ڈگری کا اضافہ ہوا ہے جو کہ 2026ء میں ہونا تھا۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ گرمی زیادہ یا قابل برداشت نہ ہو تو اسے ’’ہیٹ ویو‘‘ کہتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ہیٹ ویو کیلئے مخصوص علاقوں کے مطابق درجہ حرارت بیان کئے گئے ہیں۔ میدانی علاقوں میں کم از کم 40 ڈگری، ساحلی علاقوں میں 37ڈگری اور پہاڑی علاقوں میں30ڈگری سے زیادہ درجہ حرارت ہو تو اسے ہیٹ ویو کہا جاتا ہے۔عموماً اپریل اور جون کے درمیان ہیٹ ویو دیکھی جاتی ہے اور سب سے زیادہ شدت مئی میں پائی جاتی ہے۔ماہرین کے مطابق ہیٹ ویو4سے 10دن تک رہ سکتی ہے ،دورانیہ اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے۔مئی میں ہیٹ ویو آنے کے امکانات اس لئے زیادہ ہوتے ہیںکیونکہ اس مہینے میں بارشیں کم ہوتی ہیں اور گرمی کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے۔
ہیٹ ویو پہلے بھی کئی مرتبہ آچکی ہے یا یوں کہہ لیں کے ہر سال ہی آتی ہے لیکن اس مرتبہ ایسا کیا ہوا جس سے لوگ گرمی سے بلبلا اٹھے ہیں۔عموماً مارچ کا مہینہ بارشوں اور ہواؤں کی وجہ سے خوشگوار رہتا ہے جس کی وجہ سے گرمی کی شدت محسوس نہیں ہوتی لیکن اس مرتبہ مارچ کے مہینے میں بارشیں نہیں ہوئیں اورگرم ہوائیں چلتی رہیں جس کی وجہ سے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا اور ایک ایسی ہیٹ ویو نے آلیا جس کی لوگ توقع نہیںکر رہے تھے۔
جس خطے میں ہم موجود ہیں مغرب اور جنوب کی جانب سے آنے والی ہواؤں کی وجہ سے بارش ہوتی ہے لیکن اس مرتبہ مغرب کی جانب سے آنے والی ہوائیں اتنی طاقتور نہیں تھیں جس کی وجہ سے مارچ کے مہینے میں بارشیں نہیں ہوئیں کیونکہ مغرب کی جانب سے آنے والی ہوائیں نیچے میدانی علاقوں میں آنے کی بجائے شمالی علاقوں سے ہوتی ہوئی گزر رہی تھیں۔ ماحولیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سال پچھلے122سالوں میں سب سے زیادہ گرم ہو سکتا ہے ۔یہ جان کر آپ حیرت میںڈوب جائیں گے کہ پچھلے 20سال میں دنیا بھر میں ایک لاکھ66ہزار افراد ہیٹ ویو کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔گرم موسم کے دوران رات کو موسم کچھ بہتر ہو جاتا ہے جس سے انسانی جسم کو کچھ وقت ملتا ہے خود کو ٹھنڈا کرنے میں لیکن ہیٹ ویو میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اس دوران رات کو بھی موسم گرم ہی ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم کو یہ موقع نہیں ملتا ۔ مسلسل گرم رہنے کی وجہ سے جسم میں کئی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہیں۔
بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے ڈمپ یارڈ میں آگ لگنے کے واقعات بھی سامنے آچکے ہیں ۔جب ہر قسم کا کچرا ایک جگہ پر پھینکا جائے گا تو اس سے میتھین کا اخراج ہو گا اور میتھین ایک مخصوص درجہ حرارت کے بعد فوراً آگ پکڑ لیتی ہے۔ برطانوی سائنسدان تھامس کراؤتھرکے مطابق ہر سال120گیگاٹن کاربن ہمارے ماحول میں شامل ہوتا ہے اوراس وقت دنیا میں جتنے بھی درخت موجود ہیں ان میں تقریباً 120گیگا ٹن ہی کاربن جذب کرنے کی طاقت ہے۔اگر دیکھا جائے تو دنیا میں ایک بیلنس بنا ہوا ہے لیکن پچھلے 200سالوں سے ہم ماحول میں 10 سے 20گیگاٹن زیادہ کاربن شامل کررہے ہیں اور اضافی کاربن کیلئے ہم نے اب تک کوئی حل تلاش نہیں کیا۔تھامس کے مطابق دنیا کو بچانے کیلئے ہمیں مزیدایک کھرب درختوں کی ضرورت ہے۔ایک مشہور کہاو ت کے کہ ’’ آم کھاؤ پیڑ نہ گنو‘‘ لیکن ہم آم کھاتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ آم کے درخت لگانا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا آم کھانا ضروری ہے۔
گرمی لگنے کی صورت میں جو اے سی اور کولر استعمال کئے جاتے ہیں ان کی قیمت ماحولیاتی تبدیلی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ شاپنگ مال میں لگا سینٹرل ائیر کنڈیشننگ سسٹم مال کو تو ٹھنڈا رکھتا ہے لیکن اس مصنوعی ٹھنڈک کے ماحول پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس سے سب لاعلم ہیں۔وہی مصنوعی ٹھنڈک ماحول میں جان لیوا گرمی بڑھانے کا سبب بنتی ہے۔
ڈاکٹر مدثر اقبال شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں،ان کے تحقیقی مضامین متعدد قومی اور بین الاقوامی جرائد میں شائع ہو چکے ہیں