عالمی درجہ حرارت میں اضافہ

Published On 29 June,2022 12:50 pm

لاہور : (امین کنجاہی) اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ کے مطابق آنے والے کچھ ہی برسوں میں دنیا کے کئی شہروں کا درجہ حرارت اس قدر بڑھ جائے گا کہ وہاں رہنا ممکن نہیں رہے گا۔اقوامی متحدہ کی رپورٹ ’’سسٹین ایبل اربن کولنگ ہینڈ بک‘‘ میں واضح کیا گیا ہے کہ زیادہ گرم موسم کی وجہ سے ایسے آلات کا استعمال کیا جاتا ہے جو ٹھنڈک فراہم کر سکیں جن میں ائیر کنڈیشننگ سرفہرست ہے۔ایسے آلات کا ضرورت سے زیادہ استعمال بھی عالمی درجہ حرارت بڑھانے کی اہم وجہ ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات معاشی زندگی پر بھی پڑیں گے،دو ماہ قبل پاکستان میں بھی ہیٹ ویو نے لوگوں کی ایسے آلات کے استعمال پر مجبور کر دیا جن سے ہیٹ ویو کا مقابلہ کیا جا سکے۔بجلی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اپریل اور مئی کے ماہ میں بجلی کے بلوں میں بھی اضافہ دیکھنے کوملا۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی جس معاشی بوجھ کا ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد بجلی کے زیادہ استعمال کے نتیجے میں ہونے والا خرچ ہے۔ رپورٹ میں اس کیلئے ’’ کولنگ کوسٹ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ،اور ایسے شہر جو گلوبل وارمنگ میں ہاٹ سپاٹ بن جائیں گے وہاں رہنے والے شہریوں کو گرم موسم کا مقابلہ کرنے کیلئے دنیا کے دیگر شہروں سے دگنی قیمت اداکرنی پڑے گی۔

ٹھنڈک فراہم کرنے والے آلات کا استعمال بڑھے گا تو توانائی کے استعمال میں بھی اضافہ ہو گا۔ توانائی پیدا کرنے کیلئے جن طریقوں کا استعمال کیا جائے گا اس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہوگا۔ کچھ عرصہ قبل زیادہ تر لوگوں کو یہی لگتاتھا کہ گلوبل وارمنگ سے صرف گرمی میں اضافہ ہو گا اور اگر گرمی ناقابل برداشت بھی ہوئی تو ائیر کنڈیشنڈ کا استعمال کرتے ہوئے اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے لیکن صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ سے ایسی تباہی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جس کا حل کسی ائیر کنڈیشنڈ بنانے والی کمپنی کے پاس موجود نہیں ہوگا۔

شہری علاقوں میںUrban Heat Island کی وجہ سے موسم زیادہ گرم ہوتا ہے۔ شہری علاقوں کے گرد و نواح میں موجود دیہاتی علاقوں میںموسم قدرے کم گرم ہوتا ہے ، جیسے جیسے آپ شہر کی جانب بڑھتے جائیں گرمی کی شدت میں اضافہ ہو تا جاتا ہے۔ایسا شہروں میں موجود ٹریفک، کنکریٹ کے بے تحاشہ استعمال اور ٹھنڈک پیدا کرنے والے آلات کے استعمال سے ہوتا ہے اور اسے’’اربن ہیڈ آئی لینڈ افیکٹ‘‘کہتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جو شہر مستقبل میں رہنے کے قابل نہیں رہیں گے ان شہروں میں گردو نواح کے علاقوں کی نسبت درجہ حرارت5ڈگری تک زیادہ ہو سکتا ہے۔یہ 5ڈگری کس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں ہونے والا غیر معمولی اضافہ صرف2ڈگری ہے جس نے دنیا بھر کے انسانوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور موسم کی گرمی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ 2050ء تک ناقابل رہائش شہروں کی آبادی 1.6ارب تک پہنچ جائے گی۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان شہروں کی آبادی بڑھتی جائے گی بلکہ ایسے شہروں میں اضافہ ہوتا جائے گا جو بڑھتے ہوئے عالمی درجہ حرارت میں سب سے زیادہ متاثرہوں گے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیٹ ویو سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد میں پچھلے 15برسوں میں 125ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے۔بڑھتا ہوا درجہ حرارت ہر طرح سے انسانی زندگی کو متاثر کر رہا ہے۔ انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اگر 2030ء تک دنیا کا درجہ حرارت 1.5 ڈگری تک بڑھ جاتا ہے تو دنیا بھر میں 80کروڑ افراد بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے بین الاقوامی کمپنیاں ایسے کئی منصوبے بند کر سکتی ہیں جس میں کام کرنے والے کو دھوپ یا سورج کی گرمی برداشت کرنا پڑتی ہے۔

ایسے ممالک جہاں درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے وہاں کام کرنے کے دورانیہ میں 5فیصد تک کمی کرنا پڑے گی جس کی وجہ سے عالمی معیشت کو 2.3 کھرب ڈالر کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق 2030ء تک درجہ حرارت بڑھنے کی وجہ سے ہونے والی اموات 92 ہزار 207 جبکہ2050ء تک یہ تعداد2لاکھ 55 ہزار 486تک پہنچ سکتی ہے۔ دنیا کے 13ایسے شہر ہیں جہاں اگر درجہ حرارت میں صرف ایک فیصد اضافہ ہوتا ہے تو وہاں بجلی کا استعمال3.7فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اسی صورتحال میں توانائی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ اگر ہم نے طرز زندگی تبدیل نہ کیا تو بات شہروں سے بڑھتی ہوئی ممالک تک پہنچ جائے گی۔
 

امین کنجاہی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ملک کے موقر جریدوں میں ان کے مضامین شائع ہوچکے ہیں۔

Advertisement