اسلام آباد : (محمد عادل) وزیراعظم شہبازشریف اپنی حکومت کی مدت پوری کرنے کے خواہشمند اور دعویدار تو ہیں لیکن ایک طرف انہیں معیشت کو درپیش چیلنجز کا سامنا ہے تو دوسری جانب اتحادیوں کے تحفظات ہیں ۔حکومت پریشان ہے کہ معیشت بچائے یا اتحادی منائے۔دو اتحادی ایم کیوایم اور جے یوآئی پیپلزپارٹی سے ناراض ہیں تو اسلم بھوتانی اور خالدمگسی ن لیگ سے۔ رہی سہی کسر سندھ میں ہونے والے بلدیاتی الیکشن کے نتائج نے پوری کردی،مرکز میں حکومت کے اتحادی اب ایک دوسرے پر الزامات لگار ہے ہیں۔ ایم کیوایم کو تو پہلے ہی بلدیاتی قانون پر تحفظات تھے اب جے یوآئی سند ھ نے بھی آواز اٹھانی شروع کردی ہے۔ ’’زرداری بھگاؤ سندھ بچاؤ‘‘ مہم شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے ۔اپنے اہم رہنما کے سخت ردعمل پر مولانا فضل الرحمان بھی خاموش ہیں۔ یقینی طور پر راشد سومرو نے جو کہا وہ ان کی آشیرباد کے بغیر ممکن نہیں۔ امکان ہے کہ وہ بھی جلدموقع دیکھ کروزیراعظم اور آصف زرداری سے شکوہ ضرور کرینگے۔
عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد اور اتحادیوں کو ساتھ ملانے میںزرداری صاحب کا کردار سب سے اہم رہا۔ وہ جانتے ہیں ایم کیوایم کی ناراضی مول لینا شہبازحکومت کیلئے خطرناک ہے لیکن وہ وقت لے رہے ہیں، چاہیں تو فوری فیصلے کر سکتے ہیں لیکن جانتے ہیں حکومت دباؤ میں ہے۔ اتحادیوں کے پاس واپسی کا راستہ نہیں ہے ۔ آنے والے دنوں میں بڑے فیصلے ہونے ہیں اس لئے آصف زرداری سب پر دباؤ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ ماضی میں بھی پیپلزپارٹی کی حکومت میں ایم کیوایم کے ساتھ آنکھ مچولی چلتی رہی ۔زرداری صاحب کی خوبی ہے جب ضرورت ہوتی ہے تو ناراض لوگوں کو منا لیتے ہیں ۔وہ جانتے ہیں کہ ایم کیوایم سے کب اور کیسے ڈیل کرنی ہے ۔ اسلم بھوتانی اور خالد مگسی قومی اسمبلی میں خوب برسے لیکن بعدمیں شہباز شریف نے وزیراعظم ہاؤس بلا کر تحفظات سنے اورمنا بھی لیا۔
عمران خان مسلسل مخالفین پر تنقید کررہے ہیں۔ امریکی سازش کے بیانیہ کی بار بار سختی سے تردید کے بعد ایک مرتبہ پھر کپتان کرپشن اور احتساب کا بیانیہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔اب ایک بار پھر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا ہے ،وہ اس امید میں ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ پارلیمنٹ سے منظور کردہ بل مسترد کردیں تاکہ ان کے بیانیہ کو پذیرائی مل جائے لیکن شاید انہیں اندازہ نہیں کہ عدالت عمران خان سے بھی سوال کرسکتی ہے کہ بل میں زیادہ تر شقیں تو وہی ہیں جو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے خود عمران خان لائے۔
عمران خان نے ایک بار پھر حکومت پر سیاسی انجینئرنگ کا الزام لگا یا ہے جس کا ان کی طرف سے سخت جواب بھی آیا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت میں اسی طرح کے الزامات ن لیگ کی طرف سے لگائے جاتے تھے۔جنرل (ر) ظہیر نے گزشتہ روز اپنے گھر میں پی پی سات راولپنڈی سے تحریک انصاف کے امیدوار شبیراعوان کی حمایت میں اپنے گھر میں تقریب رکھی اور عمران خان کی حمایت میں کھل کر میدان میں آگئے ہیں۔ پولیٹکل انجینئرنگ ملکی سیاست کا المیہ ہے کوئی انتخاب ایسا نہیں جس کی ساکھ پر سوال نہ اٹھایا گیا ہو۔کبھی نوازشریف الزامات لگاتے ہیں کبھی عمران خان ،سیاسی تاریخ بھری پڑی ہے کئی سیاستدان اس کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ پارلیمانی نظام محدود اور مفلوج ہے سیاسی جماعتوں کا بیانیہ اپنے اقتدار اور مفادات سے جڑا ہے۔پولیٹکل انجینئرنگ کے الزامات نئے نہیں ہر بار کوئی کردار سامنے آتا ہے اور ٹارگٹ پورا کرکے چلا جاتا ہے ویسے بھی سیاسی جماعتوں کا مرکزی کردار کمزور ہونے کے بعد ’’ پریشر گروپ سیاست‘‘ کو فروغ ملا ہے ۔
پاکستان میں اقتدار کے حصول کا فارمولا بہت آسان ہے چند سیاسی خاندانوں ،سدا بہار الیکٹیبلز اور چاروں صوبوں کی چھوٹی چھوٹی جماعتوں کی حمایت کسی کو بھی اقتدار دلواسکتی ہے۔عمران خان جو مرضی کہیں ان کی حکومت کی تشکیل اور ساڑھے تین سال حکومت چلانے کا فارمولا بھی یہی تھاجس کا اعتراف ان کے رفقا متعدد بار کرچکے ہیں۔یہی کچھ اب دیکھنے کو مل رہا ہے شہبازشریف کا کردار تو ہمیشہ سے ہی صلح پسندانہ رہا ہے ،سیاستدان خود ایک دوسرے کے خلاف مہرہ بنتے ہیں۔ پارلیمنٹ سپریم ہے لیکن اس کے اسٹیک ہولڈر زخود اس کی بے توقیری کا باعث بنتے ہیں۔