اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی جانب سے مسلم لیگ(ق) کے 10 ووٹ مسترد کرنے کی رولنگ رد کرتے ہوئے تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار چودھری پرویز الہٰی کو نیا وزیراعلیٰ قرار دے دیا جبکہ حمزہ شہباز کی کابینہ تحلیل کر دی۔
فل کورٹ بنچ کے لیے اتحادی حکومت کی درخواست مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے دوبارہ انتخاب سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے فیصلے پر دلائل سنے۔
سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کی رولنگ کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا۔
پرویز الٰہی سے آج رات 11 بجے حلف لیا جائے: سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ نے گیارہ صفحات پر مشتمل مختصر حکم نامہ جاری کیا جس میں پرویز الہیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے ق لیگ کے مسترد شدہ دس ووٹ درست قرار دے دئیے گئے ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہاکہ پرویز الہی کو منتخب وزیر اعلی قرار دیا جاتا ہے، حمزہ شہباز منتخب وزیر اعلیٰ نہیں اور ان کا بطور وزیر اعلیٰ اٹھایا گیا حلف غیر آئینی ہے، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پنجاب میں آئین کے مطابق گورننس کی نفی اور عوام کے بنیادی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی کی گئی۔ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی نے سپریم کورٹ کے حکم کو غلط سمجھا اور رولنگ دیتے ہوئے ق لیگ کے درست ووٹوں کو مسترد کیا۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں حمزہ شہباز نے 179 ووٹ جبکہ پرویز الہیٰ نے 186 ووٹ حاصل کیے، اس اعتبار سے پرویز الہی ٰ ہی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔
سپریم کورٹ نے پرویز الہیٰ کو رات ہی حلف اٹھانے کا حکم دیتے ہوئے ہدایت کی کہ اگر گورنر پنجاب دستیاب نہ ہوں تو صدر عارف علوی پرویز الہیٰ سے حلف لیں۔ عدالت نے حکم کی کاپی فریقین کو فوری فراہم کرنے کی ہدایت کی اور حمزہ شہباز سمیت پوری کابینہ کو فوری دفاتر خالی کرنے کا حکم دیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں مزیدکہا گیاکہ اس کیس میں بنیادی سوال آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلے کے عملدرآمد اور بنیادی حقوق کا تھا، ، فل کورٹ بینچ تشکیل دینے کیلئے دیئے گئے دلائل میں آئینی سوال نہیں اٹھایا گیا،سپریم کورٹ کے 2015 کے جسٹس عظمت سعید کے فیصلے سے متعلق دلائل اس کیس میں قابل قبول نہیں، جسٹس عظمت سعید کے تحریر کردہ فیصلے میں پارٹی سربراہ سے متعلق پاسنگ ریمارکس تھے جو آئین کے الفاط سے مطابقت نہیں رکھتے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے21ویں آئینی ترمیم کے فیصلے میں الگ سے تحریری نوٹ میں آرٹیکل 63 اے کا ذکر نہیں کیا تھا۔ فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا مسترد کی جاتی ہے،پارٹی سربراہ کے اختیارات کے حوالے سے سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بنچ کا فیصلہ آرٹیکل 63 اے سے متعلق نہیں، اٹھارہویں اور اکیسویں ترمیم سے متعلق بطور دلیل پیش کیا گیا فیصلہ اکثریتی نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 63 اے کی جو تشریح کی وہ بالکل درست ہے ۔
عدالت نے کہاکہ حمزہ شہباز حکومت کے تمام قانونی اقدامات برقرار رہیں گے،نئے وزیراعلیٰ اور کابینہ چاہے تو ان اقدامات کو واپس یا ترمیم کر سکتی ہے۔ کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیاجائے گا۔۔
عرفان قادر کا مقدمے کی کارروائی میں مزید حصہ نہ لینے کا اعلان
قبل ازیں دوست مزاری کے وکیل عرفان قادر نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے حوالے سے سپریم کورٹ میں جاری مقدمے کی کارروائی میں مزید حصہ نہ لینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کی جانب سے مکمل بنچ تشکیل نہ دینے کے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے، اس سے قبل پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے بھی عدالتی کارروائی میں حصہ لینے سے انکار کردیا۔
سماعت ساڑھے 11 بجے کے بعد شروع ہوئی، حکمران اتحاد نے کہا کہ وہ احتجاجاً کارروائی کا بائیکاٹ کرے گی جبکہ دونوں فریقین کے وکلا پہلے ہی عدالت پہنچ گئے تھے۔
فل کورٹ بنانے پر پر ایک بھی قانونی نقطہ نہیں بتایا گیا: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فل کورٹ بنانے پر پر ایک بھی قانونی نقطہ نہیں بتایا گیا، آپ نے وقت مانگا تھا اس لیے سماعت ملتوی کی، عدالت میں موجود رہیں اور کاروائی دیکھیں۔ ابھی تک قانونی سوال کا جواب نہیں دیا گیا، سوال یہ تھا کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات جاری کرسکتا ہے یا نہیں، قانون کے مطابق پارلیمانی پارٹی نے فیصلہ کرنا ہوتا ہے اور پارٹی سربراہ پالیسی سے انحراف پر ریفرنس بھیج سکتا ہے۔ اس سوال کے لیے فل کورٹ نہیں بنایا جاسکتا، ہم نے تمام فریقین کو قانونی نقطے پر دلائل کے لیے وقت دیا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 1998 میں نگران کابینہ کو سپریم کورٹ نے معطل کردیا تھا، چیف ایگزیکٹو ہی کابینہ کا سربراہ ہوتا ہے، ہم پنجاب میں وزیر اعلیٰ کا معاملہ جلد از جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔ فل کورٹ کے نکتے پر قائل نہ ہوسکے، دلائل میں فل کورٹ کا کہا گیا، فل کورٹ کی تشکیل ستمبر کے دوسرے ہفتے تک ممکن نہیں، ہم اس معاملے کو یوں طول نہیں دے سکتے، یہ محض تاخیری حربے ہیں۔
اس کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے باعث ایک صوبے میں بحران ہے: جسٹس عمر عطا بندیال
چیف جسٹس نے کہا کہ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے قبل فل کورٹ نہیں بن سکتا، اب اس کیس کے میرٹس پر دلائل سنیں گے، اس کیس کا فیصلہ نہ ہونے کے باعث ایک صوبے میں بحران ہے، اس کیس میں مزید تاخیری حربے برداشت نہیں کریں گے۔ 21ویں ترمیم کا حوالہ پیش کیا گیا، جسٹس عظمت سعید نے 18ویں ترمیم میں آبزرویشن دی ووٹ پارٹی سربراہ کی ہدایات پر دیا جاتا ہے، 18ویں ترمیم اس کیس سے مختلف ہے، ہمیں اس معاملے پر معاونت درکار ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ اگر کسی نے کچھ غلط سمجھا تو اسے درست کیا جا سکتا ہے، غلط طور پر آئین کو سمجھنے کا مقصد ہے کہ آئین کو درست انداز میں نہیں سمجھا گیا۔ دلائل کے دوران 21ویں ترمیم کیس کا حوالہ دیا گیا، 21ویں ترمیم والے فیصلے میں آبزرویشن ہے کہ پارٹی سربراہ ووٹ دینے کی ہدایت کر سکتا ہے، آرٹیکل 63 اے کی تشریح میں کون ہدایت دے گا یہ سوال نہیں تھا، تشریح کے وقت سوال صرف منحرف ہونے کے نتائج کا تھا۔
کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ چیف جسٹس
انہوں نے سوال کیا کہ کیا 17 میں سے 8 ججز کی رائے کی سپریم کورٹ پابند ہو سکتی ہے؟ فل کورٹ بنچ کی اکثریت نے پارٹی سربراہ کے ہدایت دینے سے اتفاق نہیں کیا تھا، عدالت کے سامنے 8 جج کے فیصلہ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 63 اے سے متعلق 8 ججز کا فیصلہ اکثریتی نہیں ہے، آرٹیکل 63 سے پر فیصلہ 9 رکنی ہوتا تو اکثریتی کہلاتا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالتی بائیکاٹ کرنے والوں نے اتنی گریس دکھائی ہے کہ بیٹھ کر کارروائی سن رہے ہیں، میں اپنے کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں، عدالت کا بائیکاٹ کرنے والے تھوڑا دل بڑا کریں اور کارروائی سنیں۔
چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر کو ہدایت کی کہ قانونی سوالات پر عدالت کی معاونت کریں اور دوسرا راستہ ہے ہم بنچ سے الگ ہو جائیں۔
معاملہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا نہیں : بیرسٹر علی ظفر
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت نے تفصیلی دلائل سنے، یہاں معاملہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا نہیں ہے، سپریم کورٹ پہلے ہی اس معاملے کی تشریح کر چکی ہے۔ یہاں معاملہ صرف پارٹی سربراہ کی ڈائریکشن کا ہے، 18ویں ترمیم میں پارٹی ہیڈ کو منحرف ارکان کے خلاف کاروائی کا اختیار دیا گیا ہے۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج کا بار بار اپنی رائے تبدیل کرنا اچھی مثال نہیں ہوتی، جج کی رائے میں یکسانیت ہونی چاہیے۔
اس مرحلے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمٰن نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ عدالت کی خدمت میں چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت حکمران اتحاد کے فیصلے سے الگ ہوگئی ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 27 اے کے تحت عدالت کی معاونت کروں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فیصلے میں کوئی غلطی نہ ہوجائے اس لیے سب کو معاونت کی کھلی دعوت ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایات بر وقت آنے چاہیے، ڈپٹی اسپیکر نے کہا کے مجھے چودھری شجاعت کا خط موصول ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چودھری شجاعت کے وکیل نے کہا کہ تمام پارٹی ممبران کو خط بھیجا گیا تھا، انہیں پارٹی سربراہ کی واضح ہدایات تھیں۔
عدالت کو علم ہے ووٹنگ کیسے ہوئی: امتیاز صدیقی
امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی کارروائی آپ کے سامنے ہے، عدالت کو علم ہے ووٹنگ کیسے ہوئی، وفاقی حکومت تمام ذرائع بروئے کار لائی، پارٹیوں کے سربراہ کیسے لاہور میں جمع ہوئے یہ سب کے سامنے ہے۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے استفسار کیا کہ کیا ووٹنگ سے پہلے خط پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پڑھا گیا؟ انہوں نے فاروق نائیک سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نائیک صاحب اگر کچھ بہتری آ سکتی ہے تو سننے کیلئے تیار ہیں، اس پر انہوں نے جواب دیا مسئلہ یہ ہے ان مقدمات میں ہم پارٹی پالیسی کے پابند ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے مخالف فریقین کیس سن رہے ہیں لیکن دلائل نہیں دے رہے، اس وقت ان کی حیثیت ایسے ہی ہے جیسے اقوام متحدہ میں مبصر ممالک کی ہوتی ہے۔ تمام فریقین معاونت کریں تو بہتر طریقے سے فیصلہ پر پہنچ سکتے ہیں، بائیکاٹ کرنے والے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں تو سب کے لیے بہتر ہوگا۔ بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں اڑھائی بجے تک وقفہ کردیا۔
سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے کہا کہ پارٹی سربراہ کے اہم کردار کی بات کی گئی ہے، نواز شریف پارٹی صدارت کیس میں سپریم کورٹ نے کہا پارٹی سربراہ سیاسی جماعت کو کنٹرول کرتا ہے، ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ پارٹی سربراہ کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں، پارٹی سربراہ پارلیمانی پارٹی کو ہدایات دے سکتا ہے لیکن ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا، ووٹ کا فیصلہ پارلیمانی پارٹی نے کرنا ہے۔
پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ووٹنگ کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات پارٹی سربراہ کے ذریعے آتے ہیں، پارٹی سربراہ کا اہم کردار ہے لیکن پارلیمانی پارٹی کا سربراہ ووٹنگ کے لیے ہدایات جاری کرتا ہے۔
جسٹس اعجاالاحسن نے کہا کہ جو 25 اراکین صوبائی اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے، ان میں سے کتنے اراکین نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ 18 اراکین نے ضمنی انتخاب میں حصہ لیا۔
جسٹس اعجاز الااحسن نے مزید کہا کہ دوسرے فریق کا یہ کیس ہے کہ پی ٹی آئی ڈی سیٹ کیس میں یہ الیکشن کمیشن کے سامنے پارٹی سربراہ کا سوال تھا، دوسرا فریق کہہ رہا ہے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ختم ہو تو پھر حمزہ شہباز کے ووٹ 197 ووٹ پر آ جائیں گے۔
یکم جولائی کو اتفاق رائے سے فیصلہ دیا، الیکشن پر اب اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے: چیف جسٹس
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے یکم جولائی کو اتفاق رائے سے فیصلہ دیا، سپریم کورٹ نے کہا الیکشن ہوگا، کیا اب اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔ اس پر برسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ نہیں اب معاملہ ختم ہو چکا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے مزید کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا پارٹی سربراہ پارلیمنٹرینز کو کہہ سکتا ہے کہ ووٹ کس کو دینا ہے جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میں عدالت پارٹی سربراہ کی ہدایات کا طریقہ کار دے چکی ہے۔
عائشہ گلالئی کا کیس آئین کے مطابق ہے: علی ظفر
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ عائشہ گلالئی کیس کا فیصلہ تو آپ کے موکل کے خلاف جاتا ہے جس پر وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میرے موکل کے خلاف لیکن آئین کے مطابق ہے، عائشہ گلالئی کیس میں بھی منحرف ہونے کا سوال سامنے آیا تھا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہا کیا عائشہ گلالئی کیس میں لکھا ہے کہ ہدایت کون دے گا؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ عائشہ گلالئی کیس میں ارکان کو مختلف عہدوں کے لیے نامزد کرنے کا معاملہ تھا، عائشہ گلالئی کیس میں قرار دیا گیا کہ پارٹی سربراہ یا اس کا نامزد نمائندہ نااہلی ریفرنس بھیج سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ فریق دفاع نے الیکسن کمیشن کے منحرف ارکان کیخلاف فیصلہ کا حوالہ دیا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں الیکشن کمیشن کے فیصلہ ذکر نہیں۔
بیرسٹر علی ظفر نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ عدالت میں پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس کیس میں فل بنچ اور درخواست مسترد کرنے کا مطالبہ کیا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں تاثر دیا گیا کہ پارٹی سربراہ زیادہ اہم ہے، ڈپٹی اسپیکر نے جواب میں رولنگ کی بنیاد الیکشن کمیشن کا حکم قرار دیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 63 اے سے منافی کوئی فیصلہ نہیں دے سکتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ میں متفقہ طور پر کہا گیا کہ ضمنی انتخاب کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب کرایا جائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حمزہ شہباز عدالت میں موجود تھے جس پر علی ظفر نے جواب دیا کہ جی حمزہ شہباز، پرویز الہیٰ دونوں پیش ہوئے، دونوں وزیراعلیٰ پنجاب کے امیدواروں نے کہا ضمنی انتخاب کے بعد الیکشن پر کوئی اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ پھر اس کا کیا اثر ہوگا، نظرثانی اپیلوں کا اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کیخلاف اپیلوں کا انتظار کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اتفاق رائے سے جاری کیے گئے یکم جولائی کے فیصلے کیخلاف نظرثانی بھی دائر نہیں کی گئی، یہ معاملہ اب حتمی طور پر طے ہو چکا ہے۔
چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ کیا کوئی اور دستاویز ہے جسے پڑھنے کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلیٰ الیکشن
ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری نے مسلم لیگ (ق) کی طرف سے ڈالے گئے تمام 10 ووٹوں کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ ان اراکین نے پارٹی کے سربراہ شجاعت حسین کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، اس خط کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں سرپرست کی جانب سے موصول ہونے والے خط میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کو حمزہ شہباز کی حمایت کی ہدایت کی ہے۔
ووٹوں کی گنتی کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے اعلان کیا کہ پرویز الٰہی نے 186 ووٹ حاصل کیے جبکہ حمزہ 179 ووٹ لے سکے تاہم انہوں نے پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ قرار دینے سے گریز کیا۔
اس کے بجائے انہوں نے عندیہ دیا کہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے چوہدری شجاعت حسین کی مسلم لیگ (ق) کے اراکین کو پرویز الٰہی کے بجائے حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کی ہدایات نظرانداز کی گئیں۔
اس کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے اعلان کیا کہ حمزہ وزیر اعلیٰ کا انتخاب جیت چکے ہیں کیونکہ 10 ووٹوں کی کٹوتی کے بعد پرویز الٰہی کے ووٹوں کی تعداد 176 ہو گئی ہے جبکہ حمزہ 179 کے ساتھ سرفہرست رہے۔
پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں حمزہ کے دوبارہ انتخاب کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو بوگس قرار دینے کی استدعا کی تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ حمزہ شہباز کو بطور وزیراعلیٰ پنجاب/رکن صوبائی اسمبلی نااہل قرار دیا جائے۔
عدالت سے استدعا کی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 63 اے کی بنیاد پر مسلم لیگ(ق) کے 10 اراکین اسمبلی کے ووٹ مسترد کرنے کے ڈپٹی اسپیکر کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیا جائے۔