پشاور: (دنیا نیوز) جمعیت علما اسلام (ف) کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ فارن فنڈنگ اسرائیل اور بھارت کا پیسہ ہے، الیکشن کمیشن کو کس چیز کا انتظار ہے، فیصلہ کیوں نہیں کیا جارہا؟ اب تو برطانوی اخبار کی رپورٹ بھی آگئی، عمران خان کو کون لایا؟ اس معاملے پر تحقیقات کیلئے کمیشن بننا چاہیے۔
مفتی محمود مرکز پشاور میں سیاسی شخصیات کی جمعیت میں شمولیت اختیار کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بد زبانی، غیراخلاقیاتی زبان اور حرکتوں سے ہمارے نوجوان ایک بگاڑ کی طرف دھکیل دیئے جارہے ہیں، اگر ہماری آئندہ کی نسلیں ایسی تربیت کے ساتھ بڑی ہوجائے تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا، ملک کے خلاف سازش کا ڈھونگ رچایا گیا لیکن ہم نے انہیں ناکام بناتے ہوئے پیچھے دھکیل دیا ہے اور اب انہیں پاکستان کی سیاست میں دوبارہ ابھرنے کا موقع نہیں دیں گے۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے مزید کہا کہ ماضی کی حکومت اب ایک قصہ پارینہ بن چکی ہے، پی ٹی آئی جماعت اور اس کی قیادت نے نئی نسل کو سوائے خرافات، گالیوں اور بدتمیزی کے علاوہ کوئی درس نہیں دیا، ان کی تربیت گاہ میں ہماری نئی نسل کو یہی کچھ ملاہے اس وقت ہم ایک فتنے کامقابلہ کر رہے ہیں اسرائیل اور بھارت کا پیسہ پی ٹی آئی کو ملنا فارن فنڈنگ کیس ہے، جمعیت میں شامل ہونے والی سیاسی شخصیات نے ایسے حالات میں فیصلہ کیا ہے کہ جب پاکستان میں حق کی آواز کو تقویت دینے کیلئے ان کی ضرورت تھی، اپنی شخصیت اور سیاسی کیریئر کو جمعیت کا حصہ بنا دیا ہے، جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں ان مشکلات، معاشی اور اقتصادی حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ علما کرام کی موجودگی میں ایک بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ جناب رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک کی پوری تاریخ، آپ کا ایک ایک قول اور ایک ایک فرمان اور صحابہ کرام کی روایتیں سب ہم تک پہنچی ہیں، کچھ بھی نہیں رہا ہے صرف دو باتیں رہ گئی ہیں ایک یہ کہ اس دور کی کوئی گالی امت تک منتقل نہیں ہوئی اور دوسرا یہ کہ منافقین کی کوئی روایت آج امت کے پاس موجود نہیں ہے، تاریخ اور شریعت کے حوالے سے ان لوگوں کامستقبل معلوم ہونا چاہیے کہ انکی گالیاں رہیں گی اور نہ ہی انکا منافقانہ کردار زندہ رہے گا، یہاں تو عجیب عجیب باتیں کی جارہی ہیں یہ لوگ خداکے عذاب سے نہیں ڈرتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہم ایک فتنے کا مقابلہ کر رہے ہیں، فارن فنڈنگ کیس کیا ہے اسرائیل اور بھارت کا پیسہ دینا، کچھ عرصے سے ملک کے بگڑتے ہوئے حالات نے مجھے سنجیدہ قیادت ڈھونڈنے پر مجبور کر دیا، ان حالات میں اصلاح اور مشورے کرنے کی بجائے تمام پارٹیوں کے قائدین کے بارے میں نامناسب الفاظ اور نازیبا زبان استعمال کرنا ایک سلجھے ہوئے سیاستدان کا کام نہیں، ان اخلاقیات سے ہٹ کر حرکتوں کی وجہ سے سیاسی ماحول میں بے حد تناؤ پیدا کر دیا گیا، تمام انتظامیہ اور ریاستی اداروں کو اس حد تک متنازع کردیا ہے کہ کسی کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ کوئی مثبت کردار ادا کر سکیں۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انتخابات ایک آئینی ذریعہ ہے اقتدار کو عوامی خواہشات کے مطابق منتخب نمائندوں کے حوالے کرنے کا، آئین ایک مقدس دستاویز ہے جو تمام انتظامی اور قانونی امور اور ذمہ داریوں کا تعین کرتا ہے، اس میں جہاں اقتدار عوامی نمائندوں کو دینے کی ہدایات موجود ہیں وہاں آئینی طریقے سے ہٹانے کا بھی طریقہ موجود ہے جو کہ عدم اعتماد کی شکل میں ہے، اگر قومی اسمبلی میں ایک اقتدار میں بیٹھے پارٹی یا اتحادی ٹولہ کی اکثریت کھو جائے تو ان کو اخلاقی طور سے اپنے آپ کو اقتدار سے علیحدہ کرکے اکثریتی جماعت کو خوش اسلوبی سے حوالہ کر دینا چاہئیے، یہاں پر ہم نے کیا دیکھا کہ آئین کی تمام شقوں کی مخالفت کردی گئی، سپریم کورٹ میں بھی سابق وزیراعظم اور ان کے بعض ذمہ دار عہدیداران میں لکھا ہوا فیصلے کے ذریعے اسی بات کو واضح طور پر تحریر کیا۔
جمعیت علمائے اسلام ف کے امیر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باوجود اور واضح آئین کی خلاف ورزی کے باوجود سابق وزیر اعظم اور اسی کی جماعت کوئی ندامت محسوس نہیں کرتی، ان حالات میں سنجیدہ اور سلجھے ہوئی قیادت کی ضرورت ہے جو کہ اسی قوم اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے علاوہ معاشرے کے بھی اصلاح کرے، بد زبانی اور اخلاقیاتی نا مناسب زبان اور حرکتوں سے ہمارے نوجوان ایک بگاڑ کی طرف دھکیل دیئے جارہے ہیں، اگر ہمارے آئندہ کی نسلیں ایسی تربیت سے بڑی ہوجائے تو ملک کا مستقبل کیا ہوگا، اس وقت کی اہم ضرورت یہ ہے کہ ہم مل بیٹھ کر بحرانوں کا حل نکالیں، الیکشن کمیشن آف پاکستان کے خلاف ہر روز غیر اخلاقی زبان استعمال کرکے پکارنے سے الیکشن کے عمل کو بھی مشکوک کردیا گیا، اگر الیکشن کے عمل میں کوئی انتظامی یا قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے تو صلاح و مشورے سے کریں، اگر یہ راستے بھی قبول نہیں تو پھر افرا تفری اور غیر یقینی کے حالات میں الیکشن ہونا تو دور کی بات ہے بلکہ ملک کو ناقابل تلافی نقصان سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ جے یو آئی عوام کی امیدوں کی آخری کرن ہے اور امام انقلاب حضرت مولانا فضل الرحمن اور ان کے با علم تجربہ کار اور قوم کے مخلص ساتھیوں سے امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری امیدوں پر پورا اتریں گے، پچھلے چارسال کپتان خان کی حکومت نے نا تجربہ کاری اور لا پرواہی سے ہر شعبے جومیں تباہی کی ہےاس کی مثال نہیں ملتی، جے یو آئی نے بحیثیت ایک با کردار سیاسی اور مذہبی جماعت ہونے کی وجہ سے بہت بڑی ذمہ داری نبھائی ہے، اب مناسب یہ ہوگا کہ ہم بھی اسی جماعت میں شامل ہوکر ان کا بھر پور ہاتھ بٹھائیں، جو وقت کا اہم تقاضہ ہے، یہ ہمارا قومی فریضہ بنتا ہے، نوجوانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ جوان ہونے کی حیثیت سے اس مذہبی جماعت کا ساتھ دیں۔