اسلام آباد: (دنیا نیوز) وفاقی وزیر شیری رحمان نے کہا ہے کہ ملک بھر میں آنے والی شدید بارشوں اور سیلاب کے باعث جاں بحق افراد کی تعداد 913 تک پہنچ گئی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عطیہ دہندگان اور دنیا ہماری مدد کریں۔دریائے سندھ میں پانی کا بہائو 2010 کے سپر فلڈ سے زیادہ ہے، 30 ملین متاثرین شیلٹرز کے بغیر ہیں۔
وفاقی وزیر برائے ماحولیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان کی طرف سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں میں 9 سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، ملک کا کوئی حصہ نہیں جو بارشوں اور سیلاب کی زد میں نہ ہو، افسوس ہے خیبر پختونخوا اور پنجاب میں سیلاب زدگان کی مدد کے بجائے عمران خان نے ہری پور میں جلسہ کیا۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے شیری رحمان نے کہا کہ بارشوں اور سیلاب سے کل شام تک 913 لوگ جاں بحق ہوگئے، سندھ میں 169 ، کے پی میں 169 اور پنجاب میں 164 لوگ جاں بحق ہوئے، عمران خان کے پی اور پنجاب میں سیلاب زدگان کی جان و مال بچانے کے بجائے اپنی سیاست بچانے میں لگے ہوئے، کیا عمران خان کو پورے ملک میں سیلاب نظر نہیں آ رہا؟
اس سے قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینٹر شیری رحمان نے میڈیا سے گزارش کرتے ہوئے کہا کہ وہ سیلاب زدگان کی حالت زار کو اجاگر کرنے، بچائو اور امدادی سرگرمیوں اور مون سون کی بارشوں سے ہونے والے نقصانات کو اجاگر کرنے پر توجہ مرکوز کرے تاکہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو عوامی تعاون کے ساتھ ایک مربوط ردعمل سے آگاہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ اگست کے مہینے میں ملک میں مجموعی طور پر 166 ملی میٹر بارش ہوئی جو کہ معمول سے 241 فیصد زیادہ ہے جبکہ ملک کے جنوبی حصے بالخصوص سندھ میں رواں سیزن کی معمول کی اوسط سے 784 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں جو کہ تشویشناک ہے۔ یہ چونکا دینے والے اعدادوشمار محکمہ موسمیات کی جانب سے مرتب کیے گئے ہیں، شدید بارشوں نے متاثرہ صوبوں کے مختلف سیلاب زدہ علاقوں میں پلوں اور مواصلاتی ڈھانچے کو بہا دیا۔
انہوں نے زور دیا کہ دریائے سندھ میں پانی کا بہائو 2010 کے سپر فلڈ سے زیادہ ہے، یہ مون سون کی بارشوں کے آٹھواں سلسلہ ہے جہاں جنوبی پاکستان میں شدید اور زیادہ بارشیں ہوئی ہیں جس کی وجہ سے سندھ کے 23 اضلاع کو آفت زدہ علاقے قرار دیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے بتایا کہ ملک میں قومی ایمرجنسی کا اعلان کیا گیا ہے، ملک میں سیلابی صورتحال کی وجہ سے وزیر خارجہ اور وزیر اعظم نے بیرون ملک سرکاری دورے ملتوی کر دیے ہیں۔ مسلح افواج اور نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر امدادی سرگرمیوں میں سرگرم ہیں۔ تقریباً 30 ملین متاثرین شیلٹرز کے بغیر ہیں، ان میں سے ہزاروں بے گھر ہیں اور خوراک سے محروم ہیں۔ ضرورتوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے جو جلد مکمل ہو جائے گا اور اس کے نتیجے میں امداد اور بچائو کیلئے عطیہ دینے والے اداروں سے رابطہ کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ بحران بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی حکومت یا صوبے کیلئے اتنے بڑے سیلاب اور شدید بارشوں سے نمٹنا ممکن نہیں۔ وزیر اعظم کا ریلیف فنڈ اکائونٹ آفات سے متاثرہ لوگوں کیلئے عطیات جمع کرنے کرنے کیلئے فعال ہے جبکہ این ڈی ایم اے اور پی ڈی ایم اے نے خیمے منگوائے ہیں۔ وزیر اعظم نے بچائو اور امدادی سرگرمیوں کی سربراہی اور نگرانی کیلئے این ڈی ایم اے میں ایک وار روم بھی کھولا ہے۔
وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ ستمبر میں مون سون کے دورانیے میں توسیع کے بارے میں اطلاعات موصول ہوئی ہیں جو ایک بار پھر غیر معمولی اور باعث تشویش موسمی صورتحال ہو گی۔ سکھر اور تونسہ بیراجوں میں پانی کا بہائو زیادہ ہے اور ملک کی تمام دستیاب مشینری کو آفت زدہ علاقے میں پہنچایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تمام محکمے سیلاب زدہ علاقوں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں کیونکہ حالات اور اعداد و شمار تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ شیری رحمٰن نے بتایا کہ بارشوں کے باعث رونما ہونے والے واقعات میں 913 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ خیبر پختونخوا میں بچوں میں اموات کا رجحان زیادہ ہے، اسی طرح زخمیوں کی تعداد بھی زیادہ ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ عطیہ دہندگان اور دنیا ہماری مدد کریں کیونکہ ہمارا ملک ہمیشہ کسی بھی قدرتی آفات کے دوران پڑوسیوں کی مدد کیلئے رضاکارانہ طور پر پیش آتا ہے۔