اسلام آباد (دنیا نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ نے تحریک انصاف کی استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست مسترد کردی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ڈپٹی سپیکر نے استعفے منظور کرتے وقت طریقہ کار پر عمل نہیں کیا، انہوں نے جو کیا وہ اس عدالت کے فیصلے کے بالکل خلاف تھا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ڈپٹی سپیکر کے پاس استعفوں کی منظوری کا کوئی اختیار نہیں تھا، کیا سپیکر نے استعفی دینے والے ممبران اسمبلی کو بلا کر اپنا اطمینان کیا تھا؟، ڈپٹی سپیکر کا 123 ارکان کی استعفوِں کی منظوری کا نوٹیفکیشن غیر قانونی تھا، یہ عدالت عوام کے منتخب نمائندوں کا احترام کرتی ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے تحریک انصاف کی استعفوں کی مرحلہ وار منظوری کے خلاف درخواست پر سماعت کی، دوران سماعت تحریک انصاف کے وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ پارلیمان سپریم ہے لیکن 123 میں سے 11 ممبران کے استعفے منظور کر لئے گئے، اگر منظور کرنے ہیں تو استعفی دینے والے تمام ممبران کے منظور کئے جائیں یہاں صورتحال مختلف ہے۔ہمارے ممبران کے استعفے پہلے ہی منظور ہو چکے تھے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت فیصلہ دے چکی کہ رکن اسمبلی استعفیٰ دے بھی دے تو کس صورت میں منظور کیا جائے گا، استعفی دینے والے ہر ممبر کو ذاتی طور پر سپیکر کے پاس جانا چاہیے تھا، سیاسی جماعت یا پارلیمان میں بیٹھے اشخاص اتنے اہم نہیں جتنے وہ لوگ جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں، یہ عدالت فیصلہ دے چکی کہ سپیکر نے طریقہ کار پر عمل کر کے خود کو مطمئن کرنا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا تحریک انصاف نے سپیکر کو ریپریزنٹیشن بھیجی کہ استعفی دینے والے ممبران کو بلا کر اپنا اطمینان کر لیں، کیا ممبران کو استعفے طریقہ کار کے تحت منظور ہونے اور الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن تک اپنے حلقوں کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں کرنی چاہیے تھی؟ اگر سپیکر بھی ہوتا تو اسے بھی اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہیے تھا، یہ عدالت اب بھی سابق ڈپٹی سپیکر کو بصد احترام مخاطب کر رہی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ سابق ڈپٹی سپیکر نے اس عدالت کے فیصلے کے خلاف ممبران کے استعفے منظور کئے، یہ پارلیمان کی اندرونی کارروائی ہے، عدالت مداخلت نہیں کر سکتی، اداروں پر اعتماد کریں ورنہ تو سب کہیں کہ جج صاحب بات نہیں سنتے تو میں فیصلہ نہیں مانوں گا، مہذب معاشروں میں ایسا نہیں ہوتا۔
وکیل نے استدعا کی کہ میں چاہتا ہوں کہ جو استعفے سپیکر نے منظور کئے اس پر عملدرآمد کرایا جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ وہ نوٹیفکیشن غیرآئینی اور اس عدالت کے فیصلے کے خلاف تھا، کیا آپ غیرآئینی نوٹیفکیشن کو بحال کرانا چاہتے ہیں؟،اگر کوئی غیرآئینی نوٹیفکیشن عدالت کے سامنے آئے گا تو عدالت اس پر عملدرآمد کرائے گی؟۔
وکیل فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ موجودہ سپیکر کا کردار بڑا مشکوک ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سپیکر کے بارے میں ایسے الفاظ نہیں کہہ سکتے اس پر وکیل نے الفاظ واپس لے لئے،عدالت نے لارجر بنچ بنانے کےلئے پی ٹی آئی وکیل کی استدعا مسترد کردی ہے۔