عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف سے متعدد سوالات پوچھ لیے

Published On 12 September,2022 04:44 pm

لاہور: (ویب ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف سے متعدد سوالات پوچھ لیے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سلسلہ وار ٹویٹس میں عمران خان نے شہباز شریف سے متعدد سوال پوچھے۔ جن میں انہوں نے لکھا کہ شہباز شریف سےمیرا سوال: کیا تحریک انصاف کے خوف کی وجہ سےمیڈیاپر ہماری زباں بندی، اہلِ صحافت پر تشدد اور ان کے خلاف جھوٹے مقدموں کے اندراج، ٹی وی اور یوٹیوب پر مجھے اور تحریک انصاف کو بلیک آؤٹ کرنے اور میری فلڈریلیف ٹیلی تھون کی نشریات روکنے جیسی مذموم کوشش کے آپ ذمہ دار ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہےکہ آپ کے مجرم حواری اورانکے سرپرست تحریک انصاف کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ اگر آپ ہمارےآئینی حقوق غصب کرنےاور اظہاروصحافت کی آزادی کےحوالے سےعالمی وعدوں سے انحراف کے ذمہ دار نہیں تو قوم کو یہ بتانا آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ 

پی ٹی آئی چیئر مین نے مزید لکھا کہ مجرموں پر مشتمل امپورٹڈ حکومت ان کے سرپرستوں نے گزشتہ شب سیلاب متاثرین کیلئےعطیات جمع کرنے کے حوالے سے منعقدہ میری ٹیلی تھون کی نشریات رکوا کر نئی سطح تک گراوٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ پہلے انہوں نے چینلز پر ٹیلی تھون نہ دکھانے کے حوالے سے دباؤ ڈالا۔ اس کے باوجود جب چند چینلز نے نشریات جاری رکھیں تو انہوں نے کیبل آپریٹرز کو دھمکایا۔

 عمران خان کا کہنا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم میں ہماری بڑھتی ہوئی مقبولیت سے یہ کس قدرخوفزدہ ہیں۔ انہیں یہ بھی عِلم ہے لوٹ مار کی طویل تاریخ کے باعث پیسوں کے معاملے میں کوئی ان پر اعتماد کو تیار نہیں۔ چنانچہ مجھے اور میری جماعت کو نشانہ بنانےکیلئے انہوں نے سیلاب متاثرین کیلئے عطیات جمع کرنےکی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ بے حسّی ناقابلِ تصوّر ہے، اس سب کے باوجود ہم محض 2 گھنٹوں میں 5.2 ارب روپے جمع کرنےمیں کامیاب رہے۔ میں دیارِغیرخصوصاًامریکہ میں مقیم پاکستانیوں سمیت عطیہ کرنے والے ہر ایک فرد کا مشکور ہوں۔

متبادل معاشی منصوبہ تیار کریں، عمران خان کی پارٹی کو ہدایت 

اسلام آباد میں ہونے والے پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ملک شدید بدترین معاشی بحران کے نرغے میں ہے، ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف فوری طور پر متبادل معاشی منصوبہ تیار کرے، لازم ہے مضبوط معیشت کیلئے اپنی تجاویز قوم کے سامنے رکھیں۔

اجلاس میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے قیادت کو کرنسی کی صورت حال سے آگاہ کیا۔عمران خان نے قائدین کو معاشی بحالی کی حکمتِ عملی تیار کرنے کی ہدایت کردی۔

اجلاس میں عمران خان کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ آئندہ چند ماہ میں ملکی معیشت کو سنگین صورت حال کا سامنا ہوگا۔ بنی گالا میں ہونے والے اجلاس میں ملکی سیاسی صورت حال، معیشت اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو تقریباً 30 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں، آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض محض 2 ارب ڈالر ہے۔

بریفنگ میں کہا گیا کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان کی بانڈ مارکیٹ مکمل تباہ ہو چکی، تحریک انصاف کی حکومت ختم کی گئی تو بانڈ 4 فیصد کے ڈسکاؤنٹ ریٹ پر تھا۔

اسد عمر نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ بانڈ اب 50 فیصد ڈسکاؤنٹ ریٹ پر مل رہا ہے، یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے پاکستان دیوالیہ پن کی دہلیز پر کس قدر آگے جا چکا ہے۔

خاتون جج کو دھمکیاں دینے کا کیس، عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکیوں سے متعلق کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کر دی۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکانے سے متعلق کیس کی سماعت انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے کی جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی خود بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنر نے ابھی تک تفتیش جوائن نہیں کی جبکہ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر کے پاس عمران خان کا بیان موجود ہے، پراسیکیوٹر بتائیں انہوں نے ٹائم لینا ہے یا بحث کرنی ہے؟

سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ جے آئی ٹی نے عمران خان کو تین نوٹسز بھجوائے کہ عمران خان تفتیش کے لیے پیش ہو جائیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ پراسیکیوٹر قانون کی جس سیکشن کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں ملزم نہیں، گواہوں کا ذکر ہے، یہ کہاں لکھا ہے کہ پولیس کے سامنے پیش ہوکر ہی شامل تفتیش ہونا ہے؟

دوران سماعت جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی خود موجودگی کیسے ضروری ہے سیکشن 160 پڑھیں، جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے سیکشن 160 پڑھ کر سنا دی۔

بابر اعوان نے کہا کہ میں بھی یہی سیکشن پڑھنا چاہتا ہوں، اس میں لکھا ہے تفتیشی گواہان کو بلا سکتا ہے، عمران خان اس کیس کے گواہ نہیں ہیں، قانون اسمبلی بناتی ہے، اس میں کوئی اضافہ کوئی بھی خود نہیں کرسکتا، میں نے بیان لکھ کر دے دیا جسے ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا، یہ عدالت ناقص تفتیش پر پولیس والوں کو سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے، انہوں نے ضمنی میں کیوں نہیں لکھا کہ ملزم کا وکیل آیا اور بیان جمع کرایا۔

اس سے قبل ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکانے سے متعلق کیس میں عمران خان کے وکیل بابر اعوان انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔

بابر اعوان نے عدالت سے درخواست کی کہ عمران خان کی گاڑی کو جوڈیشل کمپلیکس آنے کی اجازت دی جائے، جس پر جج نے کہا کہ یہ بات آپ پہلے بتاتے تو ہم پہلے ہی اجازت دے دیتے۔

جج نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے؟ جس پر بابر اعوان نے کہا عمران خان شامل تفتیش ہو گئے ہیں، تفتیشی افسر نے خود بتایا تھا کہ بذریعہ وکیل شامل تفتیش ہوئے۔

عمران خان نے وکیل نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمہ اخراج کی درخواست پر نوٹس ہو چکا ہے، پولیس نے ہائیکورٹ کو غلط بتایا کہ عمران خان شامل تفتیش نہ ہوئے، عدالت نےکہا کہ تفتیشی افسر شفاف انویسٹی گیشن کر کے پیش رفت سے آگاہ کرے۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو 3 نوٹسز بھجوائے لیکن عمران خان ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے، وکیل کے ذریعے ایک بیان آیا تھا جس پر کہا تھا کہ وہ خود پیش ہوں۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج راجا جواد عباس نے ریمارکس دیے کہ آپ تک بیان پہنچا جسے آپ نے ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بنایا، اس سے تو آپ کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔

عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ معاملے پر جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے عدالت کی رہنمائی کریں، ایف آئی آر کے اندراج کو کتنے دن ہوئے اور جے آئی ٹی تاخیر سے کیوں بنی؟ یہ جس کرائم کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ ہے ہی تقریر کا معاملہ، آپ کو اس کے لیے ذاتی حیثیت میں ملزم کیوں چاہیے؟

معاون پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ملزم سے سوال جواب کرنے ہیں، ملزم آئے، تفتیش میں شامل ہو، اگر تفتیشی افسر نے بلایا ہے تو ملزم کو پیش ہونا ضروری ہے۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے عمران خان کے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ کو جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرانے میں کوئی مشکل ہے؟ جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ لیاقت علی خان سمیت بہت سے لیڈرز مارے جا چکے ہیں، عمران خان کو بھی سکیورٹی خدشات ہیں۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کردی اور کہا کہ اگلی سماعت دوپہر 2 بجے ہو گی تاکہ لوگوں کو مشکلات نہ ہوں۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کی پیشی کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ، انسداد دہشتگری عدالت کے اردگرد پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی، انسداد دہشتگری عدالت کی طرف آنے والے راستوں پر جگہ جگہ خاردار تاریں لگا دی گئی تھیں، غیر متعلقہ افراد کے عدالت میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

مجھ پر دہشت گردی کا مقدمہ قانون اور ملک کے ساتھ مذاق ہے: عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ان پر ایک بیان کی بنیاد بنایا جانے والا دہشت گردی کا مقدمہ قانون اور ملک کے ساتھ مذاق ہے۔ جیل میں رکھ کر تشدد کی دنیا بھر میں مذمت کی جاتی ہے۔

دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جیل میں رکھ کر ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے پھر عدالت اسکا ریمانڈ دیکر انہی کے حوالے کردیتی ہے جنھوں نے اس پر تشدد کیا ہوتا ہے ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے۔

عمران خان نے شہباز گل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے عدالت میں اس بات کو تسلیم کیا ہے اس پر تشدد ہوا ہے جب ان ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی بات کی جائے تو کیا یہ دہشت گردی ہے؟ اگر یہ دہشت گردی ہے تو آپ کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس عمل سے مذاق بنا دیا گیا ہے سارے انٹرنیشنل میڈیا نے چھاپا ہے عمران خان پر کس طرح دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا ہے۔ قانونی کارروائی کرنے کا کہنے پر انہوں نے مجھ پر دہشت گردی کا مقدمہ بنایا۔ اس مقدمہ سے ہمارے ملک کی توہین کی گئی ہے۔

صحافی نے سوال کیا کہ پہلے الطاف حسین پھر نواز شریف اور اب آپ کو مائنس کیا جارہا ہے، جس پر پی ٹی آئی چیئر مین نے جواب دیا کہ ایک چور نواز شریف اور دہشت گرد الطاف حسین سے میرا موازنہ نہ کریں۔

Advertisement