نئی حکومت کے منتخب ہونے تک آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دی جائے:عمران خان

Published On 12 September,2022 07:46 pm

لاہور: (دنیا نیوز) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ 85 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟ اگر مخالفین الیکشن جیت جاتے ہیں تو پھر سپہ سالار کا انتخاب کر لیں، مجھے کوئی مسئلہ نہیں، آصف زرداری اور نہ نواز شریف میرٹ طے کرنے کے اہل ہیں۔ ان کی ترجیح میرٹ نہیں، اپنے پیسے بچانا ہے۔ نئی حکومت کے منتخب ہونے تک آرمی چیف جنرل باجوہ کو توسیع دی جائے، پھر کہتا ہوں آرمی چیف کی تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے۔ وکلا نے بتایا جنرل باجوہ کی الیکشن تک تعیناتی کے لیے گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔

ان خیالات کا اظہار سابق وزیراعظم نے دنیا نیوز کے پروگرام دنیا کامران خان کے ساتھ میں سینئر صحافی کامران خان کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔

پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ سیلاب کے دوران بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے، بارشوں کی وجہ سے کوہ سلیمان کی طرف سے سیلاب آیا، سندھ کے اندر کھڑے پانی کی وجہ سے چاول کی فصل تباہ ہوگئی، آگے جا کر فوڈ سکیورٹی کا بھی مسئلہ آسکتا ہے، پوری قوم کو مل کر سیلاب متاثرین کی مدد کرنا ہو گی، پاکستان کواس وقت اندرونی وبیرونی امداد کی ضرورت ہے، 50 سال میں ملک میں کوئی ڈیم شروع نہیں کیا گیا، فخر ہے میری حکومت میں پہلی دفعہ 10 ڈیمزشروع کیے گئے، کوہ سلیمان کے پانی نے زیادہ تباہی مچائی، موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پوری دنیا میں تباہی ہورہی ہے، ہماری حکومت نے اسی لیے بلین ٹری سونامی شروع کیا تھا، ملک میں پُرانے جنگلوں کو ختم کر دیا گیا، بے دردی کے ساتھ ملک میں جنگلات کوختم کیا گیا، 10 بلین ٹری بہت ضروری ہے، پانی کی ڈرینج بنانا ہو گی اگر پانی کو راستہ نہیں دیں گے توتباہی مچائے گا، کراچی میں نالوں کے اوپرگھربن گئے، سندھ میں بڑے، بڑے طاقتور اپنی زمینیں بچانے کے لیے دوسری طرف پانی چھوڑ دیتے ہیں۔

ملک میں سیاسی استحکام صرف الیکشن سے آ سکتا ہے

انہوں نے کہا کہ جتنا بڑا سیلاب امتحان اتنا ہی معیشت کے حوالے سے بھی امتحان آرہا ہے، پاکستان کا بانڈ آج 50فیصد تک پہنچ گیا، پاکستان ڈیفالٹ کی طرف جا رہا ہے، بجلی، پٹرول، ڈیزل کی قیمت اوپر جا رہی ہے، مجھے خوف ہے جب تک سیاسی استحکام نہیں آتا تب تک معاشی استحکام نہیں آسکتا، اگرمعاشی استحکام نہ آیا تو مجھے خوف آرہا ہے، خدشہ ہے قرض دینے والے ممالک ہماری نیشنل سیکیورٹی کو کمزور کر دیں گے، ملک میں سیاسی استحکام صرف الیکشن سے آ سکتا ہے، اگر پاکستان ڈیفالٹ ہو گیا تو زیادہ مسائل پیدا ہوں گے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ہماری حکومت میں ڈالر178اورچھ فیصد گروتھ تھی، ہمارے دورمیں ریکارڈ ٹیکس اکٹھا ہورہا تھا، بیرون ملک سے پاکستانیوں نے31ارب ڈالر بھیجے، ملک ترقی کی راہ پر گامزن تھا، تب سازش کرکے حکومت گرائی گئی، جن کے پاس سب سے زیادہ طاقت ان کو خبردار کیا تھا، ہم نے کہا اگر اس وقت عدم استحکام آیا تو کسی سے بھی معیشت نہیں سنبھالی جائے گی، ان کے پاس معیشت سنبھالنے کا کوئی پلان نہیں تھا، یہ لوگ صرف اپنے کیسز کو ختم کروانا چاہتے تھے، آئی ایم ایف نے ان پر زور لگایا تو انہوں نے قیمتیں بڑھا دیں، ہماری حکومت بھی آئی ایم ایف پروگرام میں تھی لیکن عوام کوسبسڈی دی، موجودہ حکومت سے معاشی حالات نہیں سنبھالے جارہے، عالمی اداروں نے پاکستان کی ریٹنگ کونیچے کردیا ہے، پاکستان سنگین دیوالیہ ہونے کی طرف گامزن ہے، الیکشن سے سیاسی استحکام آئے گا تو پھر معاشی استحکام بھی آئے گا۔ 

ایک کام بھی آئین و قانون کے خلاف نہیں کیا

عمران خان کا کہنا تھا کہ 26سال سے سیاست میں ہوں ایک کام بھی آٗئین وقانون کے خلاف نہیں کیا، آئین و قانون کے دائرے میں رہ کر ہی احتجاج کریں گے، سیلاب کا فال آؤٹ سردیوں میں آئے گا، قرضے بڑھتے جا رہے ہیں اورملک کی ایکسپورٹ گررہی ہے، ملک میں بیروزگاری بڑھے گی، بجلی مہنگی ہو گئی ہے لوگ بجلی کے بل نہیں دے سکتے، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے پاکستان کے حالات سری لنکا کی طرف جا رہے ہیں، اس وقت سب سے بہترآپشن صاف اورشفاف الیکشن کا ہے

انہوں نے کہا کہ اچھی بھلی حکومت کو گرانے میں جو بھی لوگ شامل ہیں انہوں نے پاکستان کے ساتھ بہت بڑی غداری کی، تیس سال سے دوخاندان حکومت کررہے ہیں، دو خاندانوں کی وجہ سے آج بنگلادیش بھی پاکستان سے آگے نکل گیا ہے، مشرف کے بعد دو خاندانوں نے چار گنا ملک کا قرضہ بڑھایا، جو لوگ ان کو سازش کرکے لیکر آئے کیا یہ سب ذمہ دارنہیں؟ ہماری حکومت میں یہ لوگ مہنگائی کے خلاف مظاہرہ کرتے تھے، آج ملک میں مہنگائی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں، جو بھی اگلی حکومت آئے گی اس کے لیے مسائل کے پہاڑ چھوڑ کر جائیں گے، 5 سال کے لیے تگڑی حکومت آئے گی تو پھرمعاشی استحکام آئے گا، جو کچھ نظر آ رہا ہے سارے پاکستانی پریشان ہیں، روپے کی قدرمسلسل گرتی جارہی ہے، خوف آرہا ہے جدھرپاکستان جارہا ہے حالات پھرسب کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔

اپنی صوبائی حکومتوں سے استعفے دینے کا آپشن ہے

پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ تصور نہیں کر سکتا تھا کہ اللہ مجھے اتنی مقبولیت دے گا، بڑے، بڑے شہروں میں عوام کا ایسا جوش و جنون نہیں دیکھا، مجھے تو حکومت کی ہر کوشش سے فائدہ ہو رہا ہے، مشرف دور میں بھی ایسا ظلم، فاشزم نہیں دیکھا تھا، لوگوں کو ڈرایا جا رہا ہے، گمنام نمبروں سے لوگوں کو فون جا رہے ہیں، کل ٹیلی تھون میں کیبل آپریٹرزکو دھمکیاں دی گئیں، میری مقبولیت تو بڑھتی جارہی ہے لیکن معاشی حالات سے ڈر آرہا ہے، اگر یہ ملک میں استحکام لے آتے تو انتظارکرلیتا، آئی ایم ایف کہہ رہا ہے پاکستان کی عوام سری لنکا کی طرح باہرآسکتی ہے، موجودہ حکومت کی ہر چیز ناکام ہو رہی ہے، بیرون ملک سرمایہ کاروں کو بھی اس حکومت پر اعتماد نہیں، عالمی ادارہ کے مطابق سردیوں میں گیس کی قیمت 250 فیصد بڑھنے والی ہے، بہترین آپشن ملک میں الیکشن کرایا جائے تاکہ سیاسی استحکام آجائے، ہمارے پاس اپنی تمام حکومتوں سے استعفے دینے کا آپشن ہے۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 25 مئی کو ہمارے ہزاروں کارکنوں پر تشدد کیا گیا، میرے خلاف روزانہ کی بنیاد پر کیسز کیے جا رہے ہیں، ایک طرف کہتے ہیں سارے مل کر کام کریں، دوسری طرف ہمیں دیوار سے لگا رہے ہیں انہوں نے اپنے 1100 ارب معاف کرا لیے ہیں، جب چاہوں قوم کو سڑکوں پرنکال سکتا ہوں، میری دو گھنٹے کی کال پر سڑکوں پر لوگ آجاتے ہیں، عام آدمی کا بُرا حال ہے اب لوگوں کو نکالنا کوئی مشکل کام نہیں، خود فیصلہ کیا ہے ملک مشکل حالات میں ہے ، پرامن احتجاج کر کے گھر چلے جاتے ہیں، لاوا توپکا ہوا ہے اس تحریک کو ٹرن آؤٹ کیا جاسکتا ہے، حالات کوسری لنکا کی طرح کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔

دھاندلی سے راولپنڈی، مظفر گڑھ کی سیٹ ہمیں ہرا دی گئی

انہوں نے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمیشن کا نام تسلیم کر کے بہت بڑی غلطی ہوگئی، اسٹیبلشمنٹ نے گارنٹی دی تھی لیکن چیف الیکشن کمشنر ہمارے خلاف کوئی موقع نہیں چھوڑتا، دھندلی سے راولپنڈی، مظفر گڑھ کی سیٹ ہمیں ہرا دی گئیں، ای وی ایم مشین کو چیف الیکشن کمشنر نے سبوتاژ کیا، ملک میں اگر شفاف الیکشن کرانا ہے تو ووٹنگ مشین سے کرانے ہونگے، چیف الیکشن کمشنر نے ووٹنگ مشین کی کھل کرمخالفت کی۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ایاز میر جیسے دانشوروں کو ذلیل کیا گیا، دو ٹی وی چینلز کو بند کیا گیا، شہباز شریف سے سوال پوچھا ہے کیا یہ سب تم کررہے ہو، اگر شہباز شریف چینلز کو بند نہیں کر رہے تو بتاؤ کون کر رہا ہے، دھاندلی کے باوجود یہ پنجاب کا ضمنی الیکشن ہار گئے، سوات میں بھی ساری پارٹیاں بری طرح الیکشن ہار گئے، ان کو خوف ہے جب بھی الیکشن ہو گا انہوں نے ہار جانا ہے، مہنگائی بڑھنے سے ان کیخلاف نفرتیں بڑھتی جارہی ہے، ہمارے پاس دو، تین آئیڈیازہیں آئین کے اندر رہ کر ان پرپشرڈالیں گے، جب سے یہ حکومت آئی کسی ایک چیزکا بتادیں جوبہترہوئی ہو۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ جو قومیں ترقی کر رہی ہیں ان کا میرٹ کا نظام بہترہے، چین کی ترقی کی بڑی وجہ میرٹ کا سسٹم ہے، میں نے کہا تھا آرمی چیف کی تقرری میرٹ پرہونی چاہیے، کہا تھا نوازشریف، زرداری تقرری کے لیے کوالیفائیڈ نہیں، نوازشریف مفرور، زرداری کے کرپشن پر عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا، ان کی ایک ہی سوچ اپنا پیسہ بچانا ہے، میری حکومت گرا کر انہوں نے 1100 ارب بچائے۔

85سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟

انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ 85 سیٹوں والا مفرور کیسے آرمی چیف سلیکٹ کر سکتا ہے؟ یہ لوگ بیرونی سازش کے تحت آئے، اگر یہ ووٹ کے ذریعے مینڈیٹ لیکر آئیں تو سلیکٹ کر سکتے ہیں، صرف اسی صورت نئے آرمی چیف کی تعیناتی ہونی چاہیے جب یہ الیکشن جیت کر آئیں۔‘ آصف زرداری اور نواز شریف نئے آرمی چیف کی تعیناتی کی اہلیت نہیں رکھتے اور وکلا کے مطابق ایسی پروویژن موجود ہے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آئندہ الیکشن تک اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔

خیال رہے کہ پاکستانی فوج نے تصدیق کی تھی کہ جنرل باجوہ رواں سال نومبر میں ریٹائر ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا میں وہ قومیں اوپر جاتی ہیں جن میں میرٹ ہوتا ہے۔ دنیا میں کسی بھی ادارے کی کامیابی کے لیے میرٹ اہم ہے۔ اگر معاشرے میں میرٹ نہیں تو ہم دوسرے ملکوں سے مقابلہ نہیں کرسکتے۔ چین میں میرٹ کا نظام ہے۔ میں نے کہا تھا آرمی چیف کی پوزیشن اہم ہے، اسے میرٹ پر ہونا چاہیے۔ نہ آصف زرداری اور نہ نواز شریف میرٹ طے کرنے کے اہل ہیں۔ ان کی ترجیح میرٹ نہیں، اپنے پیسے بچانا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں آرمی چیف کی تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے۔ وکلا نے بتایا کہ (جنرل باجوہ کی الیکشن تک تعیناتی کے لیے) گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ملک غیر معمولی حالات کا سامنا کر رہا ہے۔ اس دور میں ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا کرنا چاہیے۔ میں بات کرنے کے لیے تیار ہوں، پہلے کوئی یہ بات کرے کہ الیکشن کروانے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔ اگر فری اینڈ فیئر الیکشن کی بات کرنے کے لیے تیار ہیں تو میں ہمیشہ ان کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میری بیرون ملک کوئی جائیداد نہیں نا بیرون ملک بھاگنا ہے، یہ لندن کے مہنگے علاقوں میں رہتے ہیں، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے، جتنی دیریہ حکومت رہے گی اتنا ہی حالات خراب ہوں گے، اگرپاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ ہوگیا توپتا نہیں کتنے سال ملک کوٹریک پرلانے میں لگیں گے، ان کے ہوتے ہوئے سیاسی استحکام ہی نہیں آسکتا، اگر فری اینڈ فیئرالیکشن کرنے کے لیے تیار تو بات چیت کے لیے تیار ہوں، سندھ میں سیلاب ہے وہاں کا الیکشن میں دوماہ تک تاخیر ہو سکتی ہے، یہ الیکشن جیت جائیں توپھراپنا آرمی چیف سلیکٹ کر لیں پھرکوئی مسئلہ نہیں۔ مغربی دنیا کی سوچ کو مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، شہبازشریف سیکرٹری جنرل کے ساتھ گفتگومیں عجیب باتیں کررہا تھا، وزیراعظم کی 60 فیصد کابینہ ضمانت پر ہے، فیکٹ آئی پینل نے دنیا میں ریسریچ کی ایلیٹ پیسہ چوری کر کے مغربی ممالک بھیجتی ہے۔

چاہتا ہوں امریکا کیساتھ تعلقات اچھے ہوں

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ میرے ڈونلڈ ٹرمپ سے بڑے اچھے تعلقات تھے، میرا امریکا سے کوئی مسئلہ نہیں، امریکا کی جنگ میں شرکت کر کے ہمیں ذلت ملی، میوچل ریسپکٹ پر امریکا سے تعلقات چاہتا ہوں، واشنگٹن کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں، امریکا میں ہماری بڑی طاقتور کمیونٹی ہے، امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہوں، صرف پاکستان کو کسی کی جنگ میں استعمال نہ کیا جائے، ہمیں کسی کی طرف جھکاؤ نہیں رکھنا چاہیے، امریکا کی غلامی نہیں دوستی چاہتا ہوں، روس کا دورہ کیا اسی کے بعد جنگ شروع ہو گئی ادھرسے ٹینشن شروع ہوئی، روس کے دورے کے بعد روس، یوکرین جنگ شروع ہو گئی، مجھے کیا پتا تھا کہ روس، یوکرین کی جنگ شروع ہوجائے گی، دوطرفہ تعلقات اونچ نیچ ہوتی ہے اور مسائل حل ہوجاتے ہیں، امریکا سے جب تجارت ہو گی تو پاکستان کو فائدہ ہوگا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین سے میرے بڑے اچھے تعلقات تھے، بورس جانسن، ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی بڑے اچھے تعلقات تھے، امریکی دورے میں ٹرمپ نے مجھے بہت عزت دی، امریکی جن کے پیسے باہر ہوں ان کی وہ عزت نہیں کرتے، امریکا سے تھوڑی ناراضگی ہوئی کوئی اینٹی امریکن نہیں ہوں، میرا کام پاکستان کے مفاد کو تحفظ کرنا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عدالت میں مجھے موقع ملتا تو جو وہ چاہتے تھے وہ بات شائد کہہ دیتا، شہباز گل کو اغوا کر کے مار مار کر بھرکس نکال دیا گیا، پی ٹی آئی رہنما نے میسج بھیجا اب برداشت نہیں کرسکتا، کہا جا ہا ہے عمران خان کے خلاف بیان دو، ٹی وی پرشہبازگل کی فوٹیج دیکھی تو کہا جن لوگوں نے واپس ریمانڈ پر بھیجا ان کیخلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے، اس بیان کے بعد میرے اوپر دہشت گردی کا کیس بنا دیا گیا، کیا یہ دہشت گردی ہے؟ میں نے تو آزاد عدلیہ کے لیے جیل کاٹی ہے، عدالتوں کا ہمیشہ احترام کیا ہے، عدالت میں اپنا جواب دوں گا، کبھی عدلیہ کی توہین نہیں کرسکتا۔

 عمران خان کا کہنا تھا کہ توہین عدالت معاملے پر افسوس کااظہار اور الفاظ واپس لینا معافی مانگنے کا ہی طریقہ ہے، توہین عدالت پر عدلیہ شاید اظہار افسوس سے زیادہ چاہتی تھی، عدالت میں بات کرنےکی اجازت ملتی تو شاید وہ کہہ دیتا جو عدالت سننا چاہتی تھی، جب تک عدالتی نظام کی ساکھ بہتر نہ ہو ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، 26سالہ سیاسی دور میں دو بار عدالت نے مجھے توہین پر بلایا، 2013ء میں ریٹرننگ آفیسرزکےالیکشن پرکہا تفتیش ہونی چاہیے، تفتیش کے لفظ پر مجھ پر توہین عدالت کاالزام لگاجوختم ہوگیا۔

پی ٹی آئی چیئر مین کا کہنا تھا کہ مجھے تو موجودہ صورتحال سے فائدہ ہو رہا ہے، الیکشن کی جلدی نہیں، ملک تیزی سے نیچے کی طرف جا رہا ہے، اگر ملک ڈیفالٹ کر گیا تو پھرحالات سب کے ہاتھ سے نکل جائیں گے تو پھر حالات کسی سے بھی نہیں سنبھالے جائیں گے، کسی کے پاس الیکشن کے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ الیکشن سے سیاسی استحکام آئے گا۔ 

عمران خان نے وزیراعظم شہباز شریف سے متعدد سوالات پوچھ لیے

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر سلسلہ وار ٹویٹس میں عمران خان نے شہباز شریف سے متعدد سوال پوچھے۔ جن میں انہوں نے لکھا کہ شہباز شریف سےمیرا سوال: کیا تحریک انصاف کے خوف کی وجہ سےمیڈیاپر ہماری زباں بندی، اہلِ صحافت پر تشدد اور ان کے خلاف جھوٹے مقدموں کے اندراج، ٹی وی اور یوٹیوب پر مجھے اور تحریک انصاف کو بلیک آؤٹ کرنے اور میری فلڈریلیف ٹیلی تھون کی نشریات روکنے جیسی مذموم کوشش کے آپ ذمہ دار ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہےکہ آپ کے مجرم حواری اورانکے سرپرست تحریک انصاف کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں۔ اگر آپ ہمارےآئینی حقوق غصب کرنےاور اظہاروصحافت کی آزادی کےحوالے سےعالمی وعدوں سے انحراف کے ذمہ دار نہیں تو قوم کو یہ بتانا آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟

پی ٹی آئی چیئر مین نے مزید لکھا کہ مجرموں پر مشتمل امپورٹڈ حکومت ان کے سرپرستوں نے گزشتہ شب سیلاب متاثرین کیلئےعطیات جمع کرنے کے حوالے سے منعقدہ میری ٹیلی تھون کی نشریات رکوا کر نئی سطح تک گراوٹ کا مظاہرہ کیا ہے۔ پہلے انہوں نے چینلز پر ٹیلی تھون نہ دکھانے کے حوالے سے دباؤ ڈالا۔ اس کے باوجود جب چند چینلز نے نشریات جاری رکھیں تو انہوں نے کیبل آپریٹرز کو دھمکایا۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ قوم میں ہماری بڑھتی ہوئی مقبولیت سے یہ کس قدرخوفزدہ ہیں۔ انہیں یہ بھی عِلم ہے لوٹ مار کی طویل تاریخ کے باعث پیسوں کے معاملے میں کوئی ان پر اعتماد کو تیار نہیں۔ چنانچہ مجھے اور میری جماعت کو نشانہ بنانےکیلئے انہوں نے سیلاب متاثرین کیلئے عطیات جمع کرنےکی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کی۔

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ بے حسّی ناقابلِ تصوّر ہے، اس سب کے باوجود ہم محض 2 گھنٹوں میں 5.2 ارب روپے جمع کرنےمیں کامیاب رہے۔ میں دیارِغیرخصوصاًامریکہ میں مقیم پاکستانیوں سمیت عطیہ کرنے والے ہر ایک فرد کا مشکور ہوں۔

متبادل معاشی منصوبہ تیار کریں، عمران خان کی پارٹی کو ہدایت

اسلام آباد میں ہونے والے پارٹی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ملک شدید بدترین معاشی بحران کے نرغے میں ہے، ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔

عمران خان نے کہا کہ تحریک انصاف فوری طور پر متبادل معاشی منصوبہ تیار کرے، لازم ہے مضبوط معیشت کیلئے اپنی تجاویز قوم کے سامنے رکھیں۔

اجلاس میں سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے قیادت کو کرنسی کی صورت حال سے آگاہ کیا۔عمران خان نے قائدین کو معاشی بحالی کی حکمتِ عملی تیار کرنے کی ہدایت کردی۔

اجلاس میں عمران خان کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ آئندہ چند ماہ میں ملکی معیشت کو سنگین صورت حال کا سامنا ہوگا۔ بنی گالا میں ہونے والے اجلاس میں ملکی سیاسی صورت حال، معیشت اور دیگر اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

پی ٹی آئی رہنما اسد عمر نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو تقریباً 30 ارب ڈالر کے قرضے واپس کرنا ہیں، آئی ایم ایف سے ملنے والا قرض محض 2 ارب ڈالر ہے۔

بریفنگ میں کہا گیا کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان کی بانڈ مارکیٹ مکمل تباہ ہو چکی، تحریک انصاف کی حکومت ختم کی گئی تو بانڈ 4 فیصد کے ڈسکاؤنٹ ریٹ پر تھا۔

اسد عمر نے اپنی بریفنگ میں کہا کہ بانڈ اب 50 فیصد ڈسکاؤنٹ ریٹ پر مل رہا ہے، یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے پاکستان دیوالیہ پن کی دہلیز پر کس قدر آگے جا چکا ہے۔

خاتون جج کو دھمکیاں دینے کا کیس، عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع

ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کو دھمکیوں سے متعلق کیس میں انسداد دہشتگردی کی عدالت نے عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کر دی۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکانے سے متعلق کیس کی سماعت انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج راجہ جواد عباس نے کی جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی خود بھی عدالت میں پیش ہوئے۔

پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشنر نے ابھی تک تفتیش جوائن نہیں کی جبکہ عمران خان کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسر کے پاس عمران خان کا بیان موجود ہے، پراسیکیوٹر بتائیں انہوں نے ٹائم لینا ہے یا بحث کرنی ہے؟

سپیشل پراسیکیوٹر نے کہا کہ جے آئی ٹی نے عمران خان کو تین نوٹسز بھجوائے کہ عمران خان تفتیش کے لیے پیش ہو جائیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ پراسیکیوٹر قانون کی جس سیکشن کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں ملزم نہیں، گواہوں کا ذکر ہے، یہ کہاں لکھا ہے کہ پولیس کے سامنے پیش ہوکر ہی شامل تفتیش ہونا ہے؟

دوران سماعت جج نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کی خود موجودگی کیسے ضروری ہے سیکشن 160 پڑھیں، جس پر سپیشل پراسیکیوٹر نے سیکشن 160 پڑھ کر سنا دی۔

بابر اعوان نے کہا کہ میں بھی یہی سیکشن پڑھنا چاہتا ہوں، اس میں لکھا ہے تفتیشی گواہان کو بلا سکتا ہے، عمران خان اس کیس کے گواہ نہیں ہیں، قانون اسمبلی بناتی ہے، اس میں کوئی اضافہ کوئی بھی خود نہیں کرسکتا، میں نے بیان لکھ کر دے دیا جسے ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا، یہ عدالت ناقص تفتیش پر پولیس والوں کو سزا دینے کا اختیار رکھتی ہے، انہوں نے ضمنی میں کیوں نہیں لکھا کہ ملزم کا وکیل آیا اور بیان جمع کرایا۔

اس سے قبل ایڈیشنل سیشن جج زیبا چودھری کو دھمکانے سے متعلق کیس میں عمران خان کے وکیل بابر اعوان انسداد دہشتگردی کی عدالت میں پیش ہوئے۔

بابر اعوان نے عدالت سے درخواست کی کہ عمران خان کی گاڑی کو جوڈیشل کمپلیکس آنے کی اجازت دی جائے، جس پر جج نے کہا کہ یہ بات آپ پہلے بتاتے تو ہم پہلے ہی اجازت دے دیتے۔

جج نے بابر اعوان سے استفسار کیا کہ کیا عمران خان شامل تفتیش ہوئے؟ جس پر بابر اعوان نے کہا عمران خان شامل تفتیش ہو گئے ہیں، تفتیشی افسر نے خود بتایا تھا کہ بذریعہ وکیل شامل تفتیش ہوئے۔

عمران خان نے وکیل نے مزید کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں مقدمہ اخراج کی درخواست پر نوٹس ہو چکا ہے، پولیس نے ہائیکورٹ کو غلط بتایا کہ عمران خان شامل تفتیش نہ ہوئے، عدالت نےکہا کہ تفتیشی افسر شفاف انویسٹی گیشن کر کے پیش رفت سے آگاہ کرے۔

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان کو 3 نوٹسز بھجوائے لیکن عمران خان ابھی تک شامل تفتیش نہیں ہوئے، وکیل کے ذریعے ایک بیان آیا تھا جس پر کہا تھا کہ وہ خود پیش ہوں۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج راجا جواد عباس نے ریمارکس دیے کہ آپ تک بیان پہنچا جسے آپ نے ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بنایا، اس سے تو آپ کی بدنیتی ثابت ہوتی ہے۔

عدالت نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ معاملے پر جے آئی ٹی کی تشکیل کے لیے عدالت کی رہنمائی کریں، ایف آئی آر کے اندراج کو کتنے دن ہوئے اور جے آئی ٹی تاخیر سے کیوں بنی؟ یہ جس کرائم کا ذکر آپ کر رہے ہیں وہ ہے ہی تقریر کا معاملہ، آپ کو اس کے لیے ذاتی حیثیت میں ملزم کیوں چاہیے؟

معاون پراسیکیوٹر نے کہا کہ تفتیشی افسر نے ملزم سے سوال جواب کرنے ہیں، ملزم آئے، تفتیش میں شامل ہو، اگر تفتیشی افسر نے بلایا ہے تو ملزم کو پیش ہونا ضروری ہے۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے عمران خان کے وکیل سے پوچھا کہ کیا آپ کو جے آئی ٹی میں بیان ریکارڈ کرانے میں کوئی مشکل ہے؟ جس پر بابر اعوان نے جواب دیا کہ لیاقت علی خان سمیت بہت سے لیڈرز مارے جا چکے ہیں، عمران خان کو بھی سکیورٹی خدشات ہیں۔

انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع کردی اور کہا کہ اگلی سماعت دوپہر 2 بجے ہو گی تاکہ لوگوں کو مشکلات نہ ہوں۔

دوسری جانب سابق وزیر اعظم عمران خان کی پیشی کے موقع پر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ، انسداد دہشتگری عدالت کے اردگرد پولیس کی بھاری نفری تعینات رہی، انسداد دہشتگری عدالت کی طرف آنے والے راستوں پر جگہ جگہ خاردار تاریں لگا دی گئی تھیں، غیر متعلقہ افراد کے عدالت میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

مجھ پر دہشت گردی کا مقدمہ قانون اور ملک کے ساتھ مذاق ہے: عمران خان

پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے ان پر ایک بیان کی بنیاد بنایا جانے والا دہشت گردی کا مقدمہ قانون اور ملک کے ساتھ مذاق ہے۔ جیل میں رکھ کر تشدد کی دنیا بھر میں مذمت کی جاتی ہے۔

دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے کہا ہے کہ جیل میں رکھ کر ایک یونیورسٹی کے پروفیسر کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے پھر عدالت اسکا ریمانڈ دیکر انہی کے حوالے کردیتی ہے جنھوں نے اس پر تشدد کیا ہوتا ہے ایسا دنیا میں کہاں ہوتا ہے۔

عمران خان نے شہباز گل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے عدالت میں اس بات کو تسلیم کیا ہے اس پر تشدد ہوا ہے جب ان ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی بات کی جائے تو کیا یہ دہشت گردی ہے؟ اگر یہ دہشت گردی ہے تو آپ کسی کو بھی دہشت گرد قرار دے سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس عمل سے مذاق بنا دیا گیا ہے سارے انٹرنیشنل میڈیا نے چھاپا ہے عمران خان پر کس طرح دہشت گردی کا مقدمہ بنایا گیا ہے۔ قانونی کارروائی کرنے کا کہنے پر انہوں نے مجھ پر دہشت گردی کا مقدمہ بنایا۔ اس مقدمہ سے ہمارے ملک کی توہین کی گئی ہے۔

صحافی نے سوال کیا کہ پہلے الطاف حسین پھر نواز شریف اور اب آپ کو مائنس کیا جارہا ہے، جس پر پی ٹی آئی چیئر مین نے جواب دیا کہ ایک چور نواز شریف اور دہشت گرد الطاف حسین سے میرا موازنہ نہ کریں۔

Advertisement