ہم سے غلطیاں ہو سکتیں لیکن غدار، سازشی اور قاتل نہیں ہو سکتے: ڈی جی آئی ایس پی آر

Published On 27 October,2022 11:24 am

راولپنڈی: (دنیا نیوز) ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ سائفر اور ارشد شریف کی موت سے جڑے حقائق کی جڑ تک پہنچنا ضروری ہے، ارشد شریف پاکستانی صحافت کے آئیکون تھے، ہم سے غلطیاں ہو سکتیں لیکن غدار، سازشی اور قاتل نہیں ہو سکتے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم کے ہمراہ اہم پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ارشد شریف پاکستانی صحافت کے آئیکون تھے، اداروں پر بے جا الزام تراشی کی گئی، حقائق کا درست ادراک انتہائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہ ارشد شریف قتل پر آرمی چیف پر بھی الزام تراشی کی گئی، حقائق کا ادراک ضروری ہے، ارشد شریف محنتی صحافی تھے، سائفر اور ارشد شریف کی موت سے جڑے حقائق کی جڑ تک پہنچنا بہت ضروری ہے، ارشد شریف کی موت کا ہم سب کو دکھ ہے، صحافی ارشد شریف کے خاندان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ اداروں کوبدنام کرنے کی کوشش کی گئی، لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی، ارشد شریف کی موت کا ایک جھوٹا بیانیہ بنایا گیا۔

سائفر کی من گھڑت کہانی کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، ہمارے لیے یہ بہت حیران کن تھا کہ ایک کاغذ کے ٹکڑے کو لہرایا گیا اور من گھڑٹ کہانی کھڑی گئی۔
 لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ سائفر پر آئی ایس آئی کی تحقیقات کو عوام کے سامنے لانا چاہتے تھے، ارشد شریف نے سائفر پر بھی کئی پروگرام کیے، نیشنل سکیورٹی کمیٹی کو کہا گیا کہ سائفر سفیر کی ذاتی رائے ہے، سائفر کی من گھڑت کہانی کا حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، سائفر اور ارشد شریف کی موت سے جڑے حقائق کی جڑ تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے، سلمان اقبال نے چیف ایگزیکٹو کو ہدایت کی کہ ارشد شریف کو جلد از جلد ملک سے باہر بھیج دیا جائے، تھریٹ الرٹ کا مقصد ارشد شریف کو باہر جانے پر مجبور کرنا تھا، بار بار انہیں باور کرایا جاتا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس کیس میں بہت سے سوالات جواب طلب ہیں، افسوس ناک واقعے کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات ضروری ہیں، ہم نے حکومت سے اعلیٰ سطح تحقیقات کی درخواست کی ہے، عالمی اداروں کی ضرورت ہو تو انہیں بھی شامل کرنا چاہے، اے آر وائی نیوز نے اداروں کیخلاف رجیم چینج کا مخصوص ایجنڈا پروان چڑھایا، ارشد شریف کی موت پرجھوٹا بیانیہ بنایا گیا،لوگوں کو گمراہ کیا گیا، ارشد شریف کے قتل کے سلسلے میں سلمان اقبال کو واپس لا کر انہیں شامل تفتیش کرنا چاہیے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے سوال اٹھائے کہ ارشد شریف سے رابطہ میں رہنے والے لوگ کون تھے اور کس نے ارشد شریف کا ان سے رابطہ کروایا؟ یو اے ای میں ان کے قیام و طعام کا انتظام کون کر رہا تھا، کون انہیں یقین دلا رہا تھا، کس نے انہیں کینیا جانے کا کہا گیا کیوں کہ مزید 34 ممالک ہیں جہاں پاکستانیوں کے لیے ویزہ فری انٹری ہے، ارشد شریف کو کس نے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا تھا؟۔

ان کا کہنا تھا کہ آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے، لیکن ارشد شریف اور بہت سے ان جیسے صحافیوں کو رجیم چینج کا بیانیہ فیڈ کیا گیا، شہباز گل نے اے آر وائی پر فوج میں بغاوت پر اکسانے کا بیان دیا، اے آر وائی چینل نے پاک فوج اور اس کی قیادت کے خلاف جھوٹے اورسازشی بیانیے کو فروغ دیا۔

لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا کہ لفظ نیوٹرل کو گالی بنادیا گیا ہے، ہمارے شہدا کا مذاق بنایا گیا، ہم غدار سازشی یا قاتل نہیں ہوسکتے، سائفر کا بہانہ بنا کر أفواج پاکستان کی تضحیک کی گئی، غیر آئینی کام سے انکار کرنے پر میر جعفر اور میر صادق کے القاب دیے گئے۔

 لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا اپنے اداروں پر اعتماد رکھیں، ماضی میں ہوئی غلطیوں کو پچھلے 20 سالوں سے اپنے خون سے دھو رہے ہیں، ہم کمزور ہو سکتے ہیں، ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں مگر ہم سارشی نہیں ہو سکتے کیونکہ ایک بہت مشہور اسکالر نے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو توڑنا ہے تو اس کی فوج کو کمزور کرنا ہو گا۔

ان کا کہنا تھا ایک متحد قوم ہی چیلنجز کا مقابلہ کر سکتی ہے، ہم بطور ادارہ کبھی اپنی قوم کو مایوس نہیں کریں گے، یہ وقت اتحاد، تنظیم اور نظم و ضبط کا ہے۔

 

Advertisement