اسلام آباد: (دنیا نیوز) اسلام آباد کی عدالت میں تحریک انصاف کے رہنما فواد چودھری کیخلاف الیکشن کمیشن حکام کو دھمکیاں دینے کے کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے دلائل سننے کے بعد پی ٹی آئی رہنما کے 2 روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دیتے ہوئے 27 جنوری کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
اسلام آباد میں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے سے قبل کمرہ عدالت چھوٹا ہونے کی وجہ سے سماعت کی جگہ تبدیل کی گئی، اس دوران پی ٹی آئی کارکنان نے حکومت مخالف نعرے بازی کی اور ان کی پولیس اہلکاروں کے ساتھ دھکم پیل بھی ہوئی، پولیس افسر کی جانب سے احاطہ عدالت کو چیک کرنے کے بعد فواد چودھری کو منہ پر سفید چادر سے ڈھانپ کے کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔
سماعت کے دوران فواد چودھری کے بھائی فیصل چودھری نے وہاں موجود تحریک انصاف کے کارکنوں سے کمرہ عدالت سے باہر نکلنے کی اپیل بھی کی اور کہا کہ آپ کی فواد چودھری سے ملاقات بھی کروائیں گے۔
جوڈیشل مجسٹریٹ نوید خان کی عدالت میں سیکرٹری الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کا آغاز ہوا تو پی ٹی آئی کے وکلاء نے فواد چودھری کی ہتھکڑی کھوکنے کی استدعا کی، فواد چودھری نے عدالت سے کہا اسلام آباد پولیس کو کہیں کہ اس طرح نہ کریں، باہر 1500 پولیس والے ہیں، مجھے ہتھکڑی لگائی ہوئی، میں سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، پانچ منٹ فیملی سے بات کرنی ہے اور پانچ منٹ اپنے وکلاء سے۔
جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل سعد حسن نے ایف آئی آر کا متن پڑھ کر سنایا، اپنے دلائل میں انکا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن آئینی ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کروانے کے تمام اختیارات ہیں، سوچے سمجھے منصوبے کے تحت الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کیا جا رہا، ملزم نے شہریوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی، یہ عوام کیلئے رول ماڈل ہیں، ان کی تقریر کا مقصد گروپس کو اشتعال دلانا تھا۔
وکیل سعد حسن نے عدالت کو بتایا کہ فواد چودھری کی تقریر کرنے کا مقصد سب کو اکسانا تھا، فواد چودھری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے گھروں تک پہنچیں گے، ان کا مقصد الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت کو فروغ دینا تھا، ایف آئی آر میں بغاوت کی دفعات بھی شامل ہیں، الیکشن کمیشن کے ممبران کو دھمکایا جا رہا ہے، پہلے ریمانڈ کیلئے ملزم کو پیش گیا ہے، مزید تفتیش کرنی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ عدالت کے سامنے مواد رکھ سکتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو پرائیویٹ لوگوں کی جانب سے دھمکی آمیز خط لکھے جا رہے ہیں، میں وہ مواد عدالت کو چیمبر میں دکھا سکتا ہوں، پبلک میں نہیں، فواد چودھری کے خلاف کافی الیکٹرانک مواد موجود ہے، میں الزامات پڑھ رہا تھا تو فواد چودھری انشاللہ ماشاءاللہ کہہ رہےتھے۔
وکیل سعد حسن نے مزید کہا کہ فواد چودھری نے جو تقریر میں کہا وہ انہوں نے مانا بھی ہے، کیا فواد چودھری کے حوالے سے فیصلہ کرنا درست نہیں، ان کی تقریر کے پیچھے لوگوں کا معلوم کرنا ہے، ان کی تقریر کے پیچھے ایک مہم چل رہی ہے، فواد چودھری کے بیان پر پولیس کو ابھی تفتیش کرنی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ فواد چودھری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی حالت اس وقت منشی کی ہے، جس پر پی ٹی آئی رہنما نے جواب دیتے ہوئے کہا تو الیکشن کمیشن کی حالت منشی کی ہوئی ہوئی ہے، جس پر عدالت نے فواد چودھری کو کہا کہ آپ ایک جانب آ جائیں، دوسرے فریقین کو دوسری طرف آنے دیں۔
فواد چودھری نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے خلاف مقدمے میں بغاوت کی دفعات شامل کی ہیں، مجھے نیلسن منڈیلا، ابو الکلام آزاد جیسے بڑے رہنماؤں کی صف میں شامل کر دیا ہے، اس ایف آئی آر کو خارج کرنا چاہئے، یہ بنتی نہیں ہے، بغاوت کی دفعہ بھی مقدمہ میں لگا دی گئی ہے، آزادی کیلئے جدوجہد کرنے والوں کے خلاف بھی ایسی ہی باتیں ہوتی تھیں۔
پی ٹی آئی رہنما نے مزید کہا کہ میرے خلاف تو مقدمہ بنتا ہی نہیں ہے، ایسے تو جمہوریت ختم ہو جائے گی، کوئی تنقید نہیں کر پائے گا، میں تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، جو میں بات کروں وہ میری پارٹی کی پالیسی ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ جو میں بات کروں وہ میرا ذاتی خیال ہو، الیکشن کمیشن نہ ملک کی اسٹیٹ ہے نہ حکومت ہے۔
انہوں نے کہا اس ایف آئی آر کو قانونی ڈاکیومنٹ مان لیا گیا تو یہ عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی، ان کے دلائل کو مان لیں تو اس کا مطلب ہے کہ اگر کسی پالیسی یا ادارے پر تنقید ہو تو بغاوت کا مقدمہ درج کر دیا جائے گا، میں کسی اجتماع سے خطاب نہیں کر رہا تھا، میڈیا ٹاک کر رہا تھا، میں دھمکی نہیں دے رہا تھا ، سمجھا رہا تھا، مجھے اسلام آباد پولیس نے گرفتار نہیں کیا، لاہور پولیس نے گرفتار کیا۔
فواد چودھری نے مزید کہا کہ لاہور پولیس نے مجھے اسلام آباد پولیس کے حوالے کیا، میری باتیں غلط کوٹ کی گئی ہیں، میں سینئر وکیل ہوں، پارلیمنٹیرین ہوں، تحریک انصاف کا ترجمان ہوں، سابق وفاقی وزیر ہوں، میں دہشتگرد نہیں کہ مجھے سی ٹی ڈی میں رکھا گیا، تفتیشی افسر نے مجھ سے کوئی تفتیش نہیں کی، میری گرفتاری غیر قانونی ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ افسوس ہے کہ ملکی سیاست میں اپنے مخالفین پر کیس بنائے جا رہے ہیں، ہم سیاست میں کبھی اوپر تو کبھی نیچے ہوتے ہیں، سماعت کے دوران فواد چودھری نے عدالت سے کیس ڈسچارج کرنے کی استدعا کردی۔
فواد چودھری کی طرف ایڈووکیٹ سید علی بخاری نے بھی وکالت نامہ جمع کراتے ہوئے کہا کہ میرے موکل کو لاہور سے گرفتار کیا گیا، مقدمہ اسلام آباد میں درج کیا گیا، درخواست گزار بھی اسلام آباد میں تھا، فواد چودھری کو لاہور سے گرفتار کرنے کا تسلیم کیا گیا، اگر مدعی مقدمہ کی بات مان لی جائے تو مقدمہ تو لاہور میں ہونا چاہیے تھا، قانون کے مطابق مقدمہ وہاں ہوتا ہے جہاں جرم کیا جاتا ہے، ایسا نہیں کہ قتل لاہور میں تو مقدمہ کراچی میں کیا جا رہا ہو۔
وکیل علی بخاری نے مزید کہا پولیس نے گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں تفتیش کی کیا ہے؟ دہشتگردی کا کیس ہے نہیں، پراسیکیوشن نے آخر کرنا کیا ہے، عدالت ضرور دیکھے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں تفتیش ہوئی کیا ہے، کیا اسلام آباد پولیس نے اسلام آباد انتظامیہ سے اجازت لی؟ بس بندہ اٹھا کر لے آئے۔
فواد چودھری کے تیسرے وکیل قیصر امام نے اپنے دلائل میں کہا کہ بطور صدر اسلام آباد بار نہیں بلکہ ان کے وکیل کی حیثیت سے پیش ہو رہا ہوں، پراسیکیوشن نے استدعا کی ہے ملزم کے گھروں کی تلاشی لینا ہے، پراسیکیوشن نے یہ بھی استدعا کی کہ ملزم کا وائس میچنگ ٹیسٹ بھی کرانا ہے، الیکشن کمیشن کے کسی ممبر نے یہ بیان نہیں دیا کہ انہوں نے خود محسوس کیا ہو، سیکرٹری الیکشن کمیشن نے بغیر کسی بیان کی موجودگی کے تفتیشی ایجنسی کو تفصیل فراہم کر دی۔
وکیل قیصر امام نے مزید کہا کہ فواد چودھری کا ایک گھر لاہور اور دوسرا اسلام آباد میں ہے، حیران ہوں کہ الیکشن کمیشن کے کسی ممبر نے خوف محسوس کرنے کا بیان دیا ہو، معلوم نہیں کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن نے کیسے الیکشن کمیشن کے ملازمین کا دماغ پڑھ لیا، عدالت نے دیکھنا ہے کہ کون سی دفعات مقدمہ میں لگتی ہیں اور کون سی نہیں، اندراج مقدمہ کے حوالے سے سب سے پہلا اعتراض اٹھاتا ہوں۔
وکیل قیصرامام نے کہا کیا کسی کے کہنے پر مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے؟ فواد چودھری نے جو بیان دیا وہ تھانہ کوہسار کی حدود میں تھا ہی نہیں، جاوید لطیف کے خلاف پشاور، لاہور مقدمات پر ہائی کورٹ نے ایک رائے دی ہے، جاوید لطیف کے کیسز میں بالکل اسی کیس کی طرح کی صورت حال تھی، عدالت نے آبزرو کیا کہ ایک بندہ اسلام آباد بیٹھ کر کوئی تقریر کرتا ہے تو اس کیخلاف کسی اور شہر میں مقدمہ کیسے درج ہو سکتا ہے۔
قیصر امام نے اپنے دلائل میں مزید کہا فواد چودھری کے خلاف مقدمے میں 4 دفعات لگائی گئی ہیں، آئین کے اندر الیکشن کمیشن کا سٹرکچر موجود ہے صرف سیکرٹری الیکشن کمیشن نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کو کوئی تکلیف ہوئی تھی تو اسے الیکشن ایکٹ ڈیل کرتا ہے، کیا یہ مذاق ہے کہ ہمارے اداروں میں بیٹھے لوگ اتنے کمزور ہیں۔
فواد چودھری کے وکیل نے مزید کہا 5 سو کلو میٹر دور بیٹھا ایک شخص کوئی بات کرتا ہے تو یہ کیسے ہراساں ہو جاتے ہیں، کیا میرے موکل نے اپنی تقریر سے انکار کیا ہے؟ جواب ہے نہیں، جب وہ اپنی تقریر سے انکار ہی نہیں کر رہے تو وائس میچنگ ٹیسٹ کیوں کرانا ہے۔