لاہور:( مفتی محمد عارف ستار القادری) خالقِ کائنات عزوجل نے جب حضرت انسان کو منصب خلافت دے کر زمین پر بھیجا تو اس کی رہنمائی کے لیے ایک مکمل ضابطۂ حیات سے بھی نوازا۔
پہلے دن سے آج تک یہ دین‘ دین اسلام ہی ہے جو انسان کے لیے ضابطۂ حیات ہے، اس کی تعلیمات کو روئے زمین پر پھیلانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیٰ نبینا وعلیہ السلام سے لے کر حضور خاتم النبیین ﷺتک کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو مبعوث فرمایا اور ان نفوس قدسیہ کو یہی فریضہ سونپا کہ وہ خالق ومخلوق کے درمیان عبودیت کا حقیقی رشتہ استوار کریں۔
انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد چونکہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے تھی اس لیے نبی رحمت ﷺ کے ظاہری وصال کے بعد امت محمدیہ کے علماء کرام نے اس فریضے کی بحسن و خوبی ترویج کی، ان عظیم شخصیات میں سے محدث اعظم پاکستان ابولفضل علامہ محمد سردار احمد قادری چشتی نور اللہ مرقدہ بھی ہیں۔
زیرِ نظر مضمون میں محدث اعظم علیہ الرحمہ کی حیات مبارکہ اور آپ کی خصوصیات و کارناموں اور آپ کے زہد وتقوی، عشق رسول ﷺ اور تلامذہ کا تذکرہ ہے اور یہ بات نہایت ضروری ہے کہ آج کے دور کے علم حاصل کرنے والے طلباء کے پیشِ نظر اپنے اسلاف کی زندگی ہو تاکہ وہ بھی ان کی طرح محنت ولگن سے علم حاصل کریں اور دین متین کی خدمت کو بحسن وخوبی سرانجام دیں۔
نام و نسب: حضور محدث اعظم کا اسم گرامی "محمد سرداراحمد" ہے، آپ کے والد گرامی " چودھری میراں بخش چشتی "علیہ الرحمہ نیک سیرت انسان اور مقربِ الہٰی ہستی تھے اور آپ کی کنیت ابوالفضل جبکہ معروف لقب محدثِ اعظم پاکستان ہے، آپ قصبہ دیال گڑھ ضلع گورداس پور(مشرقی پنجاب،انڈیا) میں 1323ھ/1905ء کو پیدا ہوئے۔
تحصیلِ علم: محدث اعظم پاکستان نے ابتدائی تعلیم پرائمری تک موضع دیال گڑھ میں حاصل کی، اسلامیہ ہائی سکول بٹالہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا، ایف اے کی تیاری کے لیے لاہور تشریف لائے، انہی دنوں مرکزی انجمن حزب الاحناف کے زیر اہتمام مسجد وزیر خاں میں ایک عظیم الشان اجلاس ہوا، جس میں پاک وہند کے کثیر علماء کرام و مشائخ عظام کے علاوہ جانشینِ اعلیٰ حضرت حجۃ الاسلام مولانا محمد حامد رضا خاں بریلوی علیہ الرحمہ بھی شریک ہوئے۔
محدث اعظم پاکستان، حضور حجۃ الاسلام کی شخصیت سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انگریزی تعلیم کو خیر آباد کہہ کر مرکز علوم و معارف بریلی شریف چلے گئے، حضور حجۃ الاسلام، مفتی اعظم عالم اسلام اور صدر الشریعہ وغیرہ (علیہم الرحمہ) سے علمی استفادہ کیا، فیضِ رضا سے ایک وقت ایسا آیا کہ دنیا میں محدثِ اعظم پاکستان کے نام معروف ہوگئے۔
حضرت محدث اعظم پاکستان سلسلہ عالیہ چشتیہ میں "حضرت شاہ محمد سراج الحق چشتی "علیہ الرحمہ کے دست اقدس پر بیعت ہوئے اور خلافت سے مشرف ہوئے اور سلسلہ قادریہ رضویہ میں حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خاں علیہ الرحمہ سے فیض یاب ہوئے اور مفتی اعظم الشاہ مولانا مصطفی رضا خان نوری علیہ الرحمہ اور حضور صدرالشریعہ نے جملہ سلاسل طریقت کی اجازت و خلافت عطا فرمائی۔
آپ کی والدہ ماجدہ فرمایا کرتیں’’تمہارا نام سردار ہے، اللہ تعالیٰ تمہیں دین و دنیا کا سردار بنائے‘‘، بالآخر وہ وقت بھی آیا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ والدہ محترمہ کی دعا کس طرح قبول ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے آپکو اسم با مسمیٰ بنا دیا، محدثِ اعظم پاکستان، شیخ الحدیث والتفسیر، جامع المعقول والمنقول، رہبر شریعت، واقف رموز طریقت، آفتابِ رضویت، محبوبِ خانوادۂِ اعلیٰ حضرت، حضرت علامہ ابوالفضل محمد سردار احمد چشتی قادری رضوی رحمۃ اللہ علیہ بیک وقت مایہ ناز مدرس، باکمال محدث، خوش الحان مقرر، بے نظیرمحقق اوردیانت دار وحق گو مفتی تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ علیہ الرحمہ سچے عاشقِ رسولﷺ اور متبع شریعت تھے۔
عشق رسول ﷺ کا یہ عالم تھا کہ حدیث رسول پڑھتے پڑھاتے ہوئے اکثر جھومتے جاتے اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ میں آبدیدہ رہتے، اس کمال درجہ محبت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا’’ جب لوگ بیمار ہوتے ہیں، بخار یا سر درد ہوتا ہے تو وہ دوائی کھاتے ہیں لیکن مجھے تکلیف ہوتی ہے تو مَیں ذکرِ مصطفیٰ ﷺکرتا ہوں اور حدیثِ مصطفیٰﷺ پڑھاتا ہوں جس سے مجھے آرام آجاتا ہے‘‘، یہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کا جذبہ تھا کہ آپ نے کبھی بھی شانِ رسالت کے کسی منکر سے ہاتھ نہیں ملایا اور اگر کوئی ایسا شخص ہاتھ ملانے کی کوشش بھی کرتا تو محبت مصطفیٰ ﷺ کے نور کی بدولت آپکو اسکی بدعقیدگی معلوم ہوجاتی اور آپ اپنا ہاتھ کھینچ لیتے۔
حضور محدث اعظم علیہ الرحمہ احترامِ حدیث رسول میں اس مقام پر فائز تھے کہ دوران درس کوئی شخص خواہ وہ کتنا ہی معزز و محترم ہو، آتا، سلام کرتا تو سلام کا جواب تو ضرور دے دیتے اور ہاتھ سے بیٹھنے کے لیے اشارہ کرتے، مگر اس وقت تک کلام نہ فرماتے جب تک سبق پورا نہ ہو جائے، پھر آنے والے کے پاس اتنا وقت ہو تو بیٹھا رہے ورنہ اٹھ کر چلا جائے آپ مطلقا پرواہ نہ کرتے، دوسرے وقت ملاقات ہوتی تو فرما دیتے کہ ’’آپ فلاں وقت تشریف لائے تھے، مَیں حدیث شریف پڑھا رہا تھا، اس لیے آپ سے بات نہ کر سکا‘‘۔ جو طالب علم عبارت پڑھتا اسے تاکید ہوتی کہ حضورکے نامِ نامی کے ساتھ ’’ﷺ‘‘ ضرور کہے اور صحابی کے نام کے ساتھ ’’رضی اللہ عنہ‘‘ اور خود بھی اس کا التزام رکھتے تھے، جیسے ہی نام نامی سنتے بآوازبلند ’’ﷺ‘‘کہتے، تاکہ دوسرے طلبا جو غافل ہوں، انہیں سن کر یاد ہو جائے۔
اگر کہیں حدیث میں آ جاتا کہ ’’ضحک النبی ﷺ‘‘تو خود بھی مسکراتے اور طلبا سے کہتے کہ ’’آپ بھی مسکرایئے‘‘ ۔ایک بار عظیم مفسر و محدث حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ آپ سے ملاقات کرنے کے لیے فیصل آباد حاضر ہوئے، اس وقت حدیث شریف کا سبق جاری تھا لیکن آپ نے درس کو موقوف نہ فرمایا، درس ختم ہونے تک حضرت حکیم الامت بیٹھے حدیث کا سبق سنتے رہے، سبق سے فراغت کے بعد حسب عادت حضور محدث اعظم نے ان سے ملاقات کی، دوران ناشتہ حکیم الامت نے آپ کے درس حدیث سے متاثر ہو کر کہا’’میری خواہش ہے کہ مَیں بھی آپ کے حلقۂ درس میں طلبا کی صف میں شامل ہو جاؤں‘‘۔
اتنے اعزازات کے باوجود عاجزی و انکساری کا عالم یہ تھا کہ نمود ونمائش سے بہت گریز فرماتے تھے، آپ کی ساری زندگی انتہائی سادگی اور بے تکلفی میں گزری، ایک مرتبہ آپ گوجرانوالہ تشریف لائے تو محبت مرشد میں آپ کے مریدِ صادق وخلیفۂ اول مفتی ابوداؤد محمد صادق رضوی نے ریلوے سٹیشن گوجرانوالہ مریدین و معتقدین کے ساتھ پرتپاک استقبال کا انتظام و انصرام کیا، کافی دیر انتظار کے بعد معلوم ہوا کہ حضور محدث اعظم تو مرکز اہلسنّت زینت المساجد میں جلوہ فگن ہو چکے ہیں، قبلہ نباض قوم جلدی سے واپس تشریف لائے تو اپنے مرشد کریم حضور محدث اعظم سے دریافت کیا کہ’’ حضور! کیا وجہ بنی آپ نے تو فرمایا تھا کہ ریل گاڑی کے ذریعہ تشریف لا رہے ہیں ،تو یہ اچانک کیسے ریل گاڑی کا ارادہ ترک فرمایا ؟‘‘
حضرت محدث اعظم نے فرمایا کہ’’ مولانا! مَیں نہیں چاہتا کہ لوگ خوامخواہ نعروں کی گونج میں مجھے لائیں اس لیے لاہور سے ریل کار کا ارادہ ترک کر کے بس پر سفر کرتے ہوئے گوجرانوالہ پہنچا اور وہاں سے ٹانگے پر بیٹھ کر زینت المساجد آگیا‘‘۔
تلامذہ: ویسے تو حضور محدثِ اعظم کے تلامذہ کی تعداد ہزاروں میں ہے جو نہ صرف پاکستان کے مختلف شہروں، قصبوں دیہاتوں بلکہ بیرون ملک سے آپ کے درس کی شہرت سن کر حاضر خدمت ہوئے اور ان میں بے شمار بین الاقوامی شہرت یافتہ مصنفین، محققین، محدثین، مفسرین، مدرسین اور مناظرین شامل ہیں بلکہ اہلسنّت کے کثیر تعداد مرکزی اداروں کے مہتممین و ناظمین و شیوخ الحدیث آپ ہی کے فیض یافتہ ہیں۔
تاہم بطور برکت چند اسمائے گرامی درج ذیل ہیں: مفسر اعظم مولانا محمد ابراہیم رضا خاں بریلوی، اُستاذ العلماء علامہ محمد عبد الرشید جھنگوی، نباض قوم مفتی ابو داؤد محمد صادق قادری، محدثِ کبیر علامہ غلام رسول رضوی، حافظ الحدیث سید محمد جلال الدین، مبلغِ درود شریف مفتی محمد امین، شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی، شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی، مفتی اعظم کراچی مفتی محمد وقار الدین، شیر اہل سنت مولانا محمد عنایت اللہ، فاضل جلیل مولانا عبد القادر احمد آبادی، شیخ العلماء مفتی محمد عبد القیوم ہزاروی، رئیس التحریر علامہ ارشد القادری، شیخ الفقہ مولانا محمد شمس الزمان قادری، اُستاذ العلماء مولانا معین الدین شافعی ،عالمی مبلغ اسلام مولانا محمد ابراہیم خوشتر، شیخ الحدیث علامہ محمد شریف رضوی بھکر، شیخ الحدیث سید حسین الدین شاہ، فیضِ مجسم علامہ محمد فیض احمد اویسی، شیخ طریقت پیر علاؤ الدین صدیقی، صوفیٔ باصفاء علامہ محمد عبد الرشید سمندری، شیخ القرآن علامہ محمد عبدالکریم ابدالوی، ضیغم اہلسنّت علامہ محمد حسن علی میلسی (وغیرہ،وغیرہ)۔
حضور محدث اعظم پاکستان نے اپنے خادمین کو وصال شریف سے چند ماہ پہلے ہی اشارۃ اپنے وصال کی خبر دے دی تاکہ خدام و محبین جدائی کے اس عظیم صدمے کو برداشت کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔
قبل از وصال پرملال اکابر اُمت، مشائخِ عظام، حضور اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی ، حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا بریلوی، صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی، صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مرشدِ برحق شاہ محمد سراج الحق چشتی صابری اور دیگر بندگان خدا عشاقان مصطفیٰ( علیہم الرحمۃ) کی خواب میں زیارات کیں، ان خوابوں کو ذکر کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ’’ان مشائخ عظام کی زیارت و ملاقات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ وقت قریب ہے کہ یہ فقیر خود ان سے جا ملے‘‘۔
قبل از وصال کان مبارک میں اذان، سورہ یٰسین، شجرہ قادریہ رضویہ، درود تاج اور قصیدہ غوثیہ پڑھا گیا، اسی عالم میں یکم شعبان 1382ھ بمطابق 29 دسمبر 1962ء جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات 1 بج کر 40 منٹ پر یہ آفتابِ علم و فضل جس کی نورانی کرنوں سے عالمِ اسلام برسوں منور ہوتا رہا، ہمیشہ کیلئے روپوش ہوگیا اور عالم اسلام کی فضاؤں کو اپنی نورانی کرنوں سے منور کرنے والے رشد و ہدایت کے مہرِ منیر ’’اللہ اللہ‘‘ کی مقدس و بابرکت آواز کے ساتھ اپنے پیارے حبیب ﷺ کے دربار میں پہنچ گئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔