لاہور: (زاہده خالد) سعودی عرب کے مغربی حصے میں واقع تاریخی خطہ المکہ صوبہ کا صدر مقام ہے اور یہ شہر دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مقدس ترین مقام کی حیثیت رکھتا ہے، یہ شہربحیرہ احمر پر واقع سعودی عرب کے ساحلی شہر جدہ سے 73 کلو میٹر یا 49 میل کے فاصلے پر واقع ہے، مکہ سعودی دارالحکومت ریاض اور جدہ کے بعد سعوی عرب کا تیسرا بڑا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے، یہ ایک تنگ وادی ہے جو سطح سمندر سے 277 میٹر بلند ہے، 1،200 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا یہ شہر تقریباً 2,385,509 افراد کی آبادی پر مشتمل ہے جن میں 44.5 فیصد سعودی اور 55.5 فیصد غیر ملکی مسلمان ہیں، یہ شہر حضور اکرم کی جائے پیدائش، وحی کے نزول اور کعبۃالله کی موجودگی کے باعث اسلام کا سر چشمہ سمجھا جاتا ہے۔
امام الدین رازی" تفسیر کبیر" میں حضرت مجاہد کی روایت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں "خالق کائنات نے مکہ مکرمہ کی سرزمین باقی زمین سے دو ہزار سال پہلے پیدا فرمائی اور اس کے چاروں بنیادی ارکان ساتویں زمین تک گہرائی میں رکھے" (تغیر کبیر، جلد 3 ، صفحہ 6)
مسلمانوں کے عقیدے کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کا تعمیر کردہ خانہ کعبہ اسلام کا مقدس ترین مقام ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اسی خانہ کعبہ کی سمت منہ کرکے نماز ادا کرتے ہیں۔
کعبۃ اللہ کے بارے میں فخرالدین رازی تفسیر کبیر میں درج کرتے ہیں کہ " پانی کی سطح پر ابھر نے والا وہ مقدس خطہ یعنی بیت اللہ شریف ، جو زمین کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آیا مکہ مکرمہ ہی کی زمین تھی، یہ پانی کے اوپر جھاگ کی مانند تھی، پھر اس کے نتیجے سے اللہ تعالٰی نے زمین چاروں جانب پھیلا دی ، لیکن زمین کے پھیلانے کا یہ کام مکہ مکرمہ کی زمین کے وجود میں آنے کے دو ہزار سال بعد عمل میں آیا اور مکہ مکرمہ کی اسی زمین پر فرشتوں نے، بیت اللہ شریف کی تعمیر کی" (تفسیر کبیر، جلد 3 ، صفحہ 6)
مکہ المکرمہ میں داخلے کے اپنے آداب اور تقاضے ہیں، دل محبت، جوش اور رب کے خوف سے لبریز ہوتا ہے، یہ وہ جذبات ہیں جو ہر شخص پر اس کی سوچ کے موافق طاری ہوتے ہیں، آپ کعبۃ اللہ میں حاضری سے پہلےاپنے جذبات و احساسات اور دلی کیفیات کا اندازہ لگانے سے قاصر ہوتے ہیں کہ جب آپ کی نظر بقول ممتاز مفتی "کالے کوٹھے" پر پڑے گی تو آپ کے جذبات میں ہلچل کا کیا عالم ہوگا، دل میں ہزار خیال کہ یہ دعا مانگیں گے وہ دعا مانگیں گے مگرجب وہ بے حجابانہ اپنا جلوہ دکھاتا ہے تو بندہ کسے جو گا نہیں رہتا " بس آنکھیں ہیں کہ برستی چلی جاتی ہیں اور کانپتے ہونٹ اللہ اکبر اللہ اکبر کا ورد ہی کرپاتے ہیں جیسے کہ بقول فیض
دل سے تو ہر اک معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہم
کہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی
رعبِ حسن و جلال کا کیا عالم ہے ؟ آپ اس جلال و کمال کو اپنے اندر کتنا جذب کر سکتے ہیں ؟ یہ آپ کے حوصلے پر منحصر ہے، دُنیا و مافیہا سے بے نیاز بندہ اسی کے سحر میں جکڑا جاتا ہے تمام شاعری ، تمام تشبیہات و استعارات اور ہجرووصال کی کیفیات اسی حوالے سے اس کے اندر اُترنے لگتی ہیں۔
سامنے کعبہ ہو، اُس کی کشش، اُس کا جلال، اُس کا جمال اور اُس کے لطف وکرم کی اُمید، اپنی خوش بختی کہ یہاں پر حاضری نصیب ہوئی سب کچھ بے خود کر دیتا ہے گویا میں میں نہیں رہتا تُوہو جاتا ہے، پھر وہاں قدم قدم یہ خیال دامن گیر رہتا ہے کہ صدیوں پہلے اِسی زمین پر میرے نبی کے قدم مبارک پڑے ہوں گے، اسی کعبے کے گرد میرے نبی نے بھی طواف کیا ہوگا، یہ حجر اسود جیسے چومنے کو ، بوسہ دینے کو ایک خلقت دیوانہ وار لپکتی ہے، اسی حجر اسور کو کبھی میرے نبی نے بھی بوسہ دیا ہوگا، اسے نصب کرنے کی سعادت پائی ہوگی، انہی راستوں پر جو سوئے حرم آتے ہیں اور جہاں سے ہر روز ہر گھڑی ہزاروں اہل صفا گزر تے ہیں انہی راستوں پر میرے نبی کے مبارک پیروں کے نشانات بھی ہوں گے۔
وہ تاریخ جو کبھی کتابوں میں پڑھی ہوتی ہے سرزمین مکہ پر اپنی آنکھوں سے نظر آتی ہے تو دل پر قابو ہی نہیں رہتا، وہ گھر کہ جہاں پر رسول اللہ کی پیدائش ہوئی اب اسے لائبریری یا مکتبہ کا درجہ دے دیا گیاہے، مکہ نہ صرف رسول الله کی جائے پیدائش ہے بلکہ کثیر صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ولادت گاہ ہونے کا شرف بھی رکھتا ہے یہی وہ شہر ہے کہ جس کے پہاڑ جبل نور بر حضور علیہ السلام پر پہلی وحی نازل ہوئی اور سب سے بڑھ کر اس شہر کا تقدس آب زم زم کا چشمہ کہ جو بی بی حاجرہ کی مامتا کے سبب پھوٹا، آج تک جاری و ساری ہے، کعبہ شریف کو اس روئے زمین پر پہلی عبادت گاہ ہونے کا شرف حاصل ہے، اسی عبادت گاہ کا حج فرض کیا گیا حالانکہ قبلہ تو بیت المقدس بھی رہا۔
مکہ شریف کو ہمیشہ کے لئے امن کا مقام قرار دیا گیا، اپنے خصائص سے مزین مکہ کی بلند و بالا عمارتیں انسان کو حیرت میں مبتلا کرتی ہیں، مکہ کی سب سے بلند عمارت مکہ ٹاور تقریباً شہر کے ہر حصے سے نظر آتی ہے، یہ ٹاور 600 میٹر بلند ہے اور اس میں 120 منازل ہیں، یہ دنیا کی چوتھی بلند ترین عمارت ہے، اس پر نصب دنیا کی سب سے بڑی گھڑی کا قطر 43 میٹر ہے، اسلامی طرز تعمیر کا شاہکار یہ ٹاور مکہ مکرمہ میں آنے والے لاکھوں زائرین کے لیے رہائش اور دیگر سہولیات کا مرکز ہے، اس کے علاوہ کئی شاندار اور بلندو بالا ہوٹل ، پلازے ، شاپنگ سنٹر ، مال مکہ کی چکا چوند میں اضافہ کرتے ہیں۔
اس پتھریلی اور ناہموار زمین پر اب باہر سے مٹی لا کر سبزہ اُگانے کا جو اہتمام کیا گیا ہے اُس نے اس شہر کی بنجر زمین کو سبزے کا گہنا پہنا کر خوبصورت کر دیا ہے، سٹرکوں کے کنارے اُگا ہؤا سبزہ اور پودے پس منظر کے سنگلاخ پہاڑوں کی سختی کو قدرے کم کرتے نظر آتے ہیں، مگر عجیب شہر ہے کہ کہیں سراٹھائے آسمان کو چھوتے ہوئے پہاڑ ہیں تو فورا ہی ان کے ساتھ سر اٹھائے سر به فلک عمارتیں حیرت زدہ کر دیتی ہیں، ایسا لگتا ہے کہ کہیں پہاڑوں نے انسانی ہاتھوں کو شکست سے دوچار کر دیا ہے اور کہیں انسانی ہاتھوں نے پہاڑوں کو مات دے دی ہے۔
دولت کی فراوانی یہاں پر دوڑتی گاڑیوں اور شاپنگ مالز میں بھری دنیا جہان کی با افراط اشیاء سے بخوبی جھلکتی ہے، نہ صرف موسمی پھل اور سبزیاں بلکہ بے موسمی پھلوں اور سبزیوں کی کثرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان دعا ؤں کا نتیجہ نظر آتی ہے جو انہوں نے اپنی آل کو مکہ میں ٹھہراتے وقت اور تعمیر کعبہ کے دوران کی تھیں ’’اے میرے رب ! میں نے اپنی کچھ اولاد کو تیرے عزت والے گھر کے پاس ایک ایسی وادی میں ٹھہرا یا ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی اے میرے رب! تا کہ وہ نماز قائم رکھیں تو تُو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے‘‘۔
اور انہیں پھلوں سے رزق عطا فرما تاکہ وہ شکر گزار ہو جائیں، سورہ آل عمران کی آیت 96 کے مطابق خدا تعالٰی نے لوگوں کے لیے مقرر کیا جانے والا پہلا گھر جو تمام دنیا کے لیے ہدایت و برکت والا ہے وہ مکہ ہی قرار دیا ہے۔ اللہ کے آخری نبی کا جائے مسکن یہ شہر تاباں کہ جس میں قیامت تک کفار و مشرکین کا داخلہ ممنوع ہے، حتی کہ قرب قیامت میں دجال بھی یہاں داخل نہیں ہو سکے گا، رہتی دنیا تک تمام مسلمانوں کے لیے "ام القرى " ، "البلد الامين" اور" محرم امن" رہے گا۔