اسلام آباد: (دنیا نیوز) سپریم کورٹ میں افغان ٹرانزٹ سامان میں کسٹم حکام کی جانب سے چیکنگ سے متعلق کیس کی سماعت میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے درخواستیں نمٹا دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا معاملہ ریاست کے اختیار میں ہے، سپریم کورٹ کا افغان ٹرانزٹ سے جڑے معاملات سے کوئی لینا دینا نہیں، کیا کسٹمز کو لگتا ہے کہ این ایل سی افغان ٹرانزٹ سامان میں سے کچھ چوری کر لیتا ہے؟ کسٹمز حکام کسی کو سامان تلاشی کے نام پر ہراساں نہیں کر سکتے۔
وکیل کسٹمز حکام نے کہا کہ افغان ٹرانزٹ سامان کی تلاشی رسک مینجمنٹ کے لیے کی جاتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسٹمز حکام رسک مینجمنٹ کے لیے نہیں، اپنی مرضی سے سامان کی تلاشی لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی جیل بھرو تحریک کامیاب نہ ہو سکی
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسٹمز صرف افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے سامان پر مصدقہ سیل چیک کرتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا افغان ٹرانزٹ ٹریڈ میں کسی ممنوعہ سامان کی ترسیل بھی ہوتی ہے؟ اگر افغان ٹرانزٹ میں ممنوعہ سامان ہو تو اس کی تلاشی بھی کی جاتی ہے؟
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کسٹمز پشاور سے آنے والے سامان کو چیک نہیں کر سکتی، کراچی پورٹ پر حکام کر سکتے ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت نے ٹرانسپورٹرز اور ٹریڈرز کے حقوق کو بھی دیکھنا ہے، جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ افغان ٹرانزٹ 2010ء کے معاہدے میں درج ہے کہ فوجی ساز وسامان کی ترسیل کی اجازت نہیں ہو گی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ معاہدہ کوئی قانون نہیں ہوتا بلکہ حکومتی معاملہ ہے، عدالت ان معاملات میں نہیں پڑے گی۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں 2رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، پشاور ہائیکورٹ نے نجی ٹرانسپورٹرز کی کسٹمر کے سامان تلاشی کے خلاف درخواستیں منظور کی تھیں، کسٹمز نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا تھا۔