لاہور: (دنیا نیوز) عالمی سطح پر پاکستان کا امیج خراب کرنے کی ایک اور بھارتی سازش بے نقاب ہو گئی، یورپی یونین کے ادارے ای یو ڈس انفو لیب نے بھارتی سازش کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔
تفصیلات کے مطابق ای یو ڈس انفو لیب نے ایک اور بھارتی سازش بے نقاب کردی، بھارتی سرکاری خبر رساں ادارہ اے این آئی جن عالمی صحافیوں، تنظیموں اور بلاگرز کا حوالہ دے کر پاکستان، پاک فوج اور چین کے خلاف جعلی رپورٹس پھیلا رہا ہے ان کا کوئی وجود ہی نہیں ملا۔
فیک نیوز کے خلاف کام کرنے والے یورپی یونین کے ادارے ای یو ڈس انفو لیب نے پاکستان کے خلاف ایک اور بھارتی سازش کا بھانڈہ پھوڑ دیا، پاکستان اور پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے والی بھارتی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل مسلسل اپنی خبروں سے ایسے کرداروں کے حوالے سے پاکستان مخالف بیانیہ بنانے میں مصروف ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں۔
ای یو ڈس انفو لیب نے ہیڈ سورسز رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اے این آئی نے اپنے آرٹیکل میں ایک ایسے تھنک ٹینک کی رپورٹ کا حوالہ دیا جو کینیڈا کے سابق رکن پارلیمنٹ نے 2012 میں بنایا جبکہ 2014 میں اس تھنک ٹینک کو بند کردیا گیا تھا، ای یو ڈس انفو لیب نے "پالیسی ریسرچ گروپ" نامی تھنک ٹینک کو بہت ڈھونڈا لیکن اس کا سراغ نہ لگ سکا۔
— EU DisinfoLab (@DisinfoEU) February 23, 2023
مبینہ تھنک ٹینک میں شامل تین افراد میں سے ایک جیمز ڈگلس کرکٹن نے 2016 میں سابق صدر پرویز مشرف کے سوئٹزرلینڈ میں مبینہ خفیہ بینک اکاؤنٹ کے حوالے سے خبر دی جو جعلی ثابت ہوئی، اے این آئی نے اس جھوٹی بات کو بھی پروپیگنڈہ کے طور پر اچھالا۔
بھارتی خبر ایجنسی نے فروری 2021 میں ایک مبینہ اینٹی ٹیررازم ٹاسک فورس کے ماہر لکھاری رونلڈ ڈچمین کےنام سے پاکستان اور مسلح تنظیموں کے حوالے سے ایک جعلی رپورٹ چلائی، درحقیقت اس خیالی لکھاری کا بھی کوئی اتہ پتہ نہیں مل سکا۔
رپورٹ کے مطابق ’انٹرنیشنل فورم فار رائٹس اینڈ سکیورٹی‘ نامی تھنک ٹینک 2014 میں بند ہوچکا ہے، اس کے باوجود 2020 سے 2022 تک اس نام نہاد تھنک ٹینک کے نام سے 19 جعلی کانفرنسزکی گئیں، اس تھنک ٹینک کے بینر تلے 500 سے زائد آرٹیکلز چھاپے گئے، ان میں سے 200 سے زائد آرٹیکلز کا حوالہ اے این آئی نے اپنی خبروں میں دیا ،لیکن ان لکھاریوں کا بھی وجود نہیں ملتا۔ؕ
عالمی تحقیقی ادارے کا کہنا ہے کہ بھارتی خبررساں ادارے میں شامل صحافی سب کچھ جانتے ہوئے بھی پاکستان کے حوالے سے جھوٹی خبریں پھیلانے کی مہم کا حصہ لگتے ہیں، اگرانہیں یہ معلوم نہیں کہ ایسی رپورٹس کے ذرائع جھوٹے ہیں تو یہ صورتحال ان کی ناکامی کا اعتراف ہے۔