لاہور: (ڈاکٹر علامہ محمد طاہر القادری) رمضان المبارک کے ماہِ سعید میں نبی کریم ﷺ کے معمولاتِ عبادت و ریاضت میں عام دنوں کی نسبت کافی اضافہ ہو جاتا تھا، اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی، اسی شوق اور محبت میں آپﷺ راتوں کے قیام کو بھی بڑھا دیتے، زیر نظر مضمون میں حضور نبی کریم ﷺکے انہی معمولات کا ذکر کیا جا رہا ہے تاکہ ہم بھی آپ ﷺ کے اسوہ پر عمل کر کے اس مہینے کی برکتوں اور سعادتوں کو لوٹ سکیں۔
معمولاتِ مصطفوی ﷺ کا اجمالی جائزہ
اجمالی طور پر حضور اکرم ﷺ کے معمولات رمضان المبارک کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔
صیامِ رمضان: اس سے مراد ماہ رمضان کے دوران اپنے اوپر روزوں کی پابندی کو لازم ٹھہرا لینا ہے۔
قیامِ رمضان: رمضان المبارک کی راتوں میں نماز تراویح، تسبیح و تہلیل اور کثرت سے ذکر و فکر میں مشغول رہنا۔
ختم قرآن: دورانِ ماہ رمضان المبارک مکمل قرآن پاک کی تلاوت کا معمول۔
اعتکاف: ماہ مبارک کے آخری عشرہ میں بہ نیت اعتکاف مسجد میں بیٹھنا۔
نمازِ تہجد: سال کے بقیہ مہینوں کی نسبت رمضان المبارک میں نماز تہجد کی ادائیگی میں زیادہ انہماک اور ذوق و شوق کا مظاہرہ۔
صدقہ و خیرات: حضور نبی کریم ﷺ اس مہینے میں عام مہینوں کی نسبت صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کیا کرتے تھے۔
ماہ رمضان اور معمولاتِ نبویﷺ
حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک سے اتنی زیادہ محبت فرمایا کرتے تھے کہ اس کے پانے کی دعا اکثر کیا کرتے تھے اور رمضان المبارک کا اہتمام ماہ شعبان میں ہی روزوں کی کثرت کے ساتھ ہو جاتا تھا، حضور نبی کریم ﷺ ماہ رجب کے آغاز کے ساتھ ہی یہ دعا اکثر فرمایا کرتے تھے، حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ جب رجب المرجب کا مہینہ شروع ہوتا تو حضور ﷺ یہ دعا فرمایا کرتے تھے، ’’اے اللہ! ہمارے لئے رجب اور شعبان بابرکت بنا دے اور ہمیں رمضان نصیب فرما‘‘(المعجم الاوسط، 4: 558، حدیث: 3951، مسند احمد بن حنبل، 1: 259)
رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کی دُعا
حضور نبی کریم ﷺ جب رمضان المبارک کا چاند دیکھتے تو فرماتے: ’’یہ چاند خیر و برکت کا ہے، یہ چاند خیر و برکت کا ہے، میں اس ذات پر ایمان رکھتا ہوں جس نے تجھے پیدا فرمایا‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ،10: 400، حدیث: 9798، المعجم الاوسط، 1: 212، حدیث: 313)
رمضان المبارک کو خوش آمدید کہنا
حضور نبی کریم ﷺ اس مبارک مہینے کا خوش آمدید کہہ کر استقبال کرتے، آپﷺ نے سوالیہ انداز کے ذریعے صحابہ کرامؓ سے رمضان المبارک کے استقبال کے بارے میں پوچھ کر اس مہینے کی برکت کو مزید واضح کیا، جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو حضور ﷺ صحابہ کرامؓ سے دریافت کرتے: ’’تم کس کا استقبال کر رہے ہو اور تمہارا کون استقبال کر رہا ہے‘‘(یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ فرمائے)، (الترغیب والترہیب،2: 105)، اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ﷺ کیا کوئی وحی اترنے والی ہے یا کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے، حضور ﷺ نے فرمایا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے، تم رمضان کا استقبال کر رہے ہو، جس کی پہلی رات تمام اہل قبلہ کو معاف کر دیا جاتا ہے‘‘ (الترغیب و الترہیب، 2: 105)۔
سحری و افطاری کا معمول
رمضان المبارک میں پابندی کے ساتھ سحری و افطاری بے شمار فوائد اور فیوض و برکات کی حامل ہیں، حضور ﷺ روزے کا آغاز سحری کے کھانے سے فرمایا کرتے تھے، حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: ’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے‘‘ (صحیح بخاری 1: 257، کتاب الصوم، حدیث: 1823)، ایک دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے اہل کتاب اور مسلمانوں کے روزے کے درمیان فرق کی وجہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: حضرت ابوقیسؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے‘‘ (صحیح مسلم، کتاب ، حدیث: 1096)، حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو‘‘(مسند احمد بن حنبل، 3: 12)۔
حضور ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ سحری کرنے والے پر اللہ کی رحمتیں ہوتی ہیں، ’’اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں نازل کرتے ہیں‘‘ (مسند احمد بن حنبل، 3: 12)۔
روزے میں سحری کو بلاشبہ بہت اہم مقام حاصل ہے، روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے، حضور ﷺ نے امت کو تلقین فرمائی ہے کہ سحری ضرور کھایا کرو، خواہ وہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو، آپ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ سحری آخری وقت میں تناول فرمایا کرتے تھے، گویا سحری کا آخری لمحات میں کھانا حضور ﷺ کی سنت ہے، فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے کہ ’’دن کو قیلولہ کر کے رات کی نماز کیلئے مدد حاصل کرو اور سحری کھا کر دن کے روزے کی قوت حاصل کرو‘‘(سنن ابن ماجہ، حدیث: 1693)۔
امام نووی رحمہ اللہ علیہ سحری میں برکت کے فوائد کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ سحری میں برکت کی وجوہات ظاہر ہیں جیسا کہ یہ روزے کو تقویت دیتی ہے اور اسے مضبوط کرتی ہے، اس کی وجہ سے روزے میں زیادہ کام کرنے کی رغبت پیدا ہوتی ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ ہے اور یہ وقت ذکر اور دُعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دُعا اور استغفار کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔
سحری کرنے میں تاخیر اور افطاری کرنے میں جلدی آنحضور ﷺ کا زندگی بھر معمول رہا، جس کے راوی حضرت سہل بن سعدؓ ہیں، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’میری امت کے لوگ بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ روزہ جلد افطار کرتے رہیں گے‘‘(صحیح مسلم، حدیث: 1098، جامع الترمذی، کتاب الصوم، حدیث: 700)۔
اسی طرح دوسری حدیث میں حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی اذان سنے اور برتن اس کے ہاتھ میں ہو تو اپنی ضرورت پوری کئے بغیر اسے نہ رکھے‘‘ (سنن ابی داؤد، 1: 328، کتاب الصوم، حدیث: 2350)
حدیث قدسی ہے کہ: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندوں میں مجھے پیارے وہ ہیں جو افطار میں جلدی کریں۔ (جامع ترمذی، کتاب الصوم، حدیث: 700)، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس امت کے لوگوں میں یہ دونوں باتیں ( یعنی افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کرنا) رہیں گی تو اس وقت تک سنت کی پابندی کے باعث اور حدود شرع کی نگرانی کی وجہ سے خیریت اور بھلائی پر قائم رہیں گے۔
سحری میں تاخیر
حضور نبی کریم ﷺ سحری تناول فرمانے میں تاخیر کرتے یعنی طلوع فجر کے قریب سحری کرتے تھے، حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ’’مجھے روزہ جلدی افطار کرنے اور سحری میں تاخیر کا حکم دیا گیا ہے‘‘ (السنن الکبریٰ، 4: 238)۔
آپﷺ کا یہ عمل یہودیوں کے برعکس تھا، جن کے ہاں سحری کرنے کا کوئی تصور نہیں تھا اور وہ افطاری کرنے کے معاملے میں آسمان پر ستاروں کے طلوع ہونے کا انتظار کیا کرتے تھے، حضور ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے، صحابہ کرامؓ کا معمول بھی یہی تھا کہ وہ آفتاب غروب ہوتے ہی افطاری سے فارغ ہو جاتے تھے۔
نبی کریم ﷺ کی افطاری
حضورﷺ اکثر اوقات کھجوروں سے روزہ افطار فرمایا کرتے تھے، اگر وہ میسر نہ ہوتیں تو پانی سے افطار فرما لیتے تھے، حضرت سلیمان بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ کھجور سے کرے کیونکہ اس میں برکت ہے اگر کھجور میسر نہ ہو تو پانی سے کیونکہ پانی پاک ہوتا ہے‘‘ (جامع الترمذی، حدیث: 658)۔
معمول قیامِ رمضان
آنحضرتﷺ کا دوسرا مبارک معمول رمضان کی راتوں میں تواتر و کثرت کے ساتھ کھڑے رہنے اور نماز، تسبیح و تہلیل اور ذکر الہٰی میں محویت سے عبارت ہے، نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے، اسی معمول کا حصہ تھی۔ حضور ﷺ نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے باب میں ارشاد فرمایا: ’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو جاتا ہے، جس دن وہ بطنِ مادر سے پیدا ہوتے وقت بے گناہ تھا‘‘(سنن نسائی، 1: 308، حدیث: 2208)۔
تراویح کی شرعی حیثیت
نماز تراویح کا سنت مؤکدہ ہونا حدیث سے ثابت ہے، آنحضرت ﷺ نے نماز تراویح مسجد میں باجماعت اور انفرادی طور پر گھر میں بھی ادا فرمائی، اس کا باجماعت ادا کرنا سنت کفایہ کے ذیل میں آتا ہے، بصورت دیگر موجودہ نماز تراویح خلفائے راشدین کی سنت بھی ہے، جس نے اجماعِ امت کا درجہ اختیار کر لیا ہے۔
معمول ختم قرآن
’’رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے‘‘ (البقرہ: 185)، آنحضورﷺ کا دورانِ رمضان المبارک ایک بار ختمِ قرآن کا معمول تھا اور آپ ﷺ نے امت کو بھی اسی اعتدال پر چلنے کی تعلیم و تلقین فرمائی ہے۔
رمضان المبارک کے دوران نماز تراویح میں کم از کم ایک بار قرآن ختم کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے، قرآن حکیم روزانہ کتنی مقدار میں پڑھا جائے؟ اس بارے میں آئمہ و علمائے فقہ کے فتاویٰ موجود ہیں، حضرت امام اعظمؒ کے نزدیک فی رکعت تراویح میں کم از کم 10 آیات قرآنی کی تلاوت کی جائے، قرآن پاک کی کل آیات تقریباً 6 ہزار ہیں اور ایک ماہ کے دوران ادا کردہ تراویح کی رکعتوں کی تعداد 600 بنتی ہے، اس حساب سے اگر روزانہ 10 سے 12 آیتیں تلاوت کی جائیں تو بآسانی ماہ رمضان المبارک میں ایک قرآن ختم ہو سکتا ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ اس سے زیادہ قرآن پاک پڑھنے کے حق میں تھے اور وہ روزانہ 20 سے 25 آیات تک تلاوت کرنے کے قائل تھے۔
معمول تہجد
رمضان المبارک کے دوران حضور اکرم ﷺ کی نماز تہجد کی ادائیگی کے بارے میں معمول مبارک یہ تھا کہ آپ ﷺ نماز تہجد میں 8 رکعت ادا فرماتے، جس میں وتر شامل کر کے کل 11 رکعتیں بن جاتیں، تہجد کا یہی مسنون طریقہ آپ ﷺ سے منسوب ہے، آنحضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم پر رات کا قیام (نماز تہجد) لازمی ہے کیونکہ صالحین کا یہ عمل رہا ہے‘‘ (سنن الترمذی، حدیث: 3549)، نماز تہجد کیلئے نماز عشاء کے بعد کچھ سونا شرط اور مسنون ہے، یہی عمل افضل و مستحب ہے، جو سنتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور سنتِ صالحین سلف سے ثابت ہے، بغیر نیند کے نماز تہجد کا ادا کرنا مکروہ ہے۔
کثرتِ صدقات و خیرات
حضور نبی کریم ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ وہ صدقہ و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے تھے، کوئی سوالی ان کے در سے خالی نہیں لوٹتا تھا، رمضان المبارک میں صدقہ و خیرات کی مقدار باقی مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی، اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہوجاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے، حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ: ’’جب رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو جاتا تو آپ ﷺ کی سخاوت کا مقابلہ تیز ہوا بھی نہ کر پاتی‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الصوم، حدیث: 1803)۔
معمول اعتکاف
رمضان المبارک میں حضور نبی کریم ﷺ بڑی باقاعدگی کے ساتھ اعتکاف فرمایا کرتے تھے، زیادہ تر آپ ﷺ آخری عشرے کا اعتکاف فرماتے، کبھی کبھار آپﷺ نے پہلے اور دوسرے عشرے میں بھی اعتکاف فرمایا لیکن جب آپﷺ کو مطلع کر دیا گیا کہ شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہے، اس کے بعد آپﷺ نے ہمیشہ آخری عشرے میں ہی اعتکاف فرمایا، حضرت عائشہ صدیقہؓ آپ ﷺ کے معمولِ اعتکاف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپﷺ اللہ تعالیٰ سے جا ملے‘‘ (صحیح البخاری: 1922)۔
اعتکاف میں انسان دنیاوی معاملات سے علیحدگی اختیار کر کے خدا کی رضا کی تلاش میں گوشہ تنہائی اختیار کرتا ہے، صوفیاء کرام اور اولیاء کرام حضور نبی کریم ﷺ کی اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں چلہ کشی کے عمل کو اختیار کرتے ہیں تاکہ وہ اس عمل کے ذریعے خدا کو راضی کرسکیں اور تزکیہ نفس کے مقام کو حاصل کر سکیں۔
ڈاکٹر علامہ محمد طاہر القادری معروف عالم دین اور سیکڑوں کتب کے مصنف ہیں، زیر نظر مضمون ان کی کتاب ’’فلسفہ صوم‘‘ سے لیا گیا ہے۔