کفرو اسلام کا پہلا معرکہ………غزوہ بدر

Published On 08 April,2023 10:19 am

لاہور: (مولانا محمد الیاس گھمن) اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ دین، دین اسلام ہے اور خاتم الانبیاء حضرت محمد ﷺ اس کے سب سے بڑے داعی، مبلغ اور محافظ ہیں، داعی ہونے کے ناطے آپ ﷺ نے اسلام کی دعوت شرق وغرب، شمال و جنوب، عرب و عجم ، شاہ و گدا، مرد و عورت، پیرو جواں، آزاد و غلام، کالے گورے الغرض بنی نوع انسانیت کے ہر طبقے تک پہنچائی، نہ صرف پہنچائی بلکہ پہنچانے کا حق ادا کر دیا۔

اس کے احکام و مسائل، اوامر و نواہی، حدود و آداب اور اصول و قوانین کی تبلیغ صبر و تحمل اور قوت برداشت سے اس انداز میں فرمائی کہ ہر ظلم و ستم، وحشت و بربریت، جبر و تشدد، دھونس دھمکیوں حتیٰ کہ قتل کے منصوبوں تک کو کمال ضبط و تحمل سے اپنے اوپر سہا، خدائے رحمان و رحیم کی طرف سے رؤف و رحیم بن کر اِنذار (محبت کے ساتھ ڈرانے) اور تبشیر (ہمدردی کے ساتھ خوشخبری دینے) کے حسین امتزاج کے ساتھ آپﷺ یہ فریضہ انجام دیا، اللہ کے دین کے محافظ ہونے کے ناطے آپ ﷺکی بنیادی ذمہ داری یہ بنتی تھی کہ اگر کوئی اسلام کو مٹانے کی کوشش کرے یا اہل اسلام سے ان کے بنیادی حقوق کو قوت و طاقت کے نشے میں مست ہو کر سلب کرنے کی جسارت یا حماقت کرے، تو آپ ﷺاس کی شر انگیزیوں سے بچانے اور اسلام کے فروغ و نفاذ کیلئے مضبوط، پائیدار، منظم اور مستحکم لائحہ عمل تیار کرتے تاکہ دین قیامت کی صبح تک پوری آب و تاب کے ساتھ باقی رہے۔

اگرچہ اسلام باہمی رواداری، بقائے باہمی، محبت و مودت اور انس و اخوت کا حکم دیتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے ماننے والوں کو یونہی بے آسرا چھوڑ دے، ان پر ظلم کے جکھڑ چلتے رہیں، یہ پستے ہی رہیں ، مرتے کٹتے رہیں ، ان کی مظلوم سسکیاں ، مجبور آہیں ، مقہور نالے و فریادیں فضاء میں بے نواء ہو کر مر جائیں ،فتنہ و فساد پھیلتا رہے، ظالم و جابر قوتیں طوفان ستم بپا کر کے دندناتی پھریں اور مظلوموں، بے کسوں، بے قصوروں اور بے گناہوں کا قتل عام ہوتا رہے، اسلام یہ ہرگز برداشت نہیں کرتا، جیسے اسلام قبول مذہب کیلئے جبر واکراہ کا قائل نہیں کہ کسی کو زبردستی مسلمان بنائے اسی طرح کسی اور کو بھی یہ حق نہیں دیتا کہ وہ دین اسلام قبول کرنے والوں کا طاقت سے راستہ روکے، بلکہ آزادی رائے و آزادی مذہب کے اس تناظر میں اسلام دنیا کا سب سے معتدل دین ہے۔

اسلام امن وسلامتی کے آفاقی و عالمگیر پیغام کو لیے مکہ سے مدینہ تک پہنچ چکا تھا، مدینہ پہنچنے پر عالمی سطح پر بالخصوص عرب کے سیاسی و مذہبی منظر نامے پر بہت تبدیلیاں دکھائی دے رہی تھیں، نبی کریم ﷺ اپنے جانثاروں کے ساتھ یثرب کی وادی کو مدینہ منورہ بنا چکے تھے، یہاں آکر آپﷺ نے عسکری حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے متعدد قبائل کے ساتھ معاہدات صلح و جنگ فرمائے، اسلام کو مزید تقویت، مضبوطی اور استحکام پہنچانے کیلئے دور رس فیصلے صادر فرمائے۔

دوسری طرف قریش مکہ اسلام کے فروغ، اہل اسلام کی خوشحالی اور عزت ووقار کو کسی طرح بھی برداشت کرنے کیلئے قطعاً آمادہ نہیں تھے، اپنی جنگی قوت کو مضبوط تر بنانے کیلئے معیشت کو مستحکم کرنے میں لگے ہوئے تھے، اسلحہ اکٹھا کرنے کی غرض سے دیگر ممالک سے تجارتی تعلقات استوار کر رہے تھے اور اندرون خانہ اسلام کو مٹانے کیلئے فیصلہ کن معرکہ لڑنے کی تیاریوں میں مگن تھے۔

2ھ کے شروع میں قریش کا ایک بہت بڑا تجارتی قافلہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں شام کی طرف جا رہا تھا، قافلے میں لاکھوں درہم مالیت کا مال و اسباب اونٹوں پر لدا ہوا تھا، مسلمان چونکہ مکہ میں قریشیوں کے مہلک جان لیوا مظالم کو سہہ چکے تھے، اس لئے وہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ اگر قریش کی معیشت مضبوط ہوگئی تو وہ اسلام کو مٹانے میں ذرہ برابر تامل نہیں کریں گے، چنانچہ حفظ ما تقدم کے اصول کے پیش نظر مسلمانوں نے اس قافلے کو روکنے کی کوشش کی تاکہ کافروں کی عسکری طاقت کی بنیاد ہی مسمار ہو جائے اور انہیں مسلمانوں پر حملہ کرنے کا موقع نہ ملے، لیکن قافلہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوگیا، مسلمان اب اس انتظار میں تھے کہ کب یہ قافلہ واپس آتا ہے؟

قافلے کے واپس ہونے کی اطلاع ملی تو 12 رمضان المبارک سن 2 ہجری کو نبی کریم ﷺ 313 مسلمانوں کو ساتھ لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے، 60 مہاجرین جبکہ باقی انصار تھے، دوسری طرف ابوسفیان کو جب مسلمانوں کی آمد کا علم ہوا تو اس نے ایک تیز رفتار گھڑ سوار مکہ کی طرف دوڑایا اور قریش مکہ کے نام پیغام بھیجا کہ یہی موقع ہے اسلام کی شمع کو ہمیشہ کیلئے بجھا دینے کا، تم جلدی سے اسلحہ اور سواریوں سمیت پہنچو، قریش مکہ تو پہلے سے تیار بیٹھے تھے کوچ نقارہ بجایا اور ایک ہزار سپاہی، سو سواریاں، تیر و تفنگ ، نیزے بھالے، تلواریں ،ڈھالیں اور جنگی ہتھیار سے لیس ہو کر مسلمانوں کی طرف بڑھنے لگے۔

بدر، مدینہ منورہ سے 80 میل کے فاصلے پر واقع ایک جگہ ہے، قریشیوں کی فوج نے یہیں پڑاؤ ڈالا، آپ ﷺ کو اس کا علم ہوا توآپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے رائے دریافت کی، مہاجرین کے سرخیل جناب ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما نے مجاہدانہ تقاریر کیں، جانثاری کا یقین دلایا، آپ ﷺ نے انصار مدینہ کی رائے لی، قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے کہا: یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺجہاں تشریف لے جائیں ہم آپﷺ کے ساتھ ہیں، جس سے جیسا چاہیں تعلق نبھائیں، ہم سے جو لینا چاہیں یا ہمیں کچھ دینا چاہیں ہم ہر طرح تیار ہیں، جو حکم فرمائیں ہم آپ ﷺکے شانہ بشانہ ہیں، بدر کیا ہے اگر آپ برک غماد تک بھی جائیں ہم آپ ﷺ کے ہم رکاب رہیں گے، اگر آپ ہمیں سمندر میں کود جانے کا حکم دیں ہم بلا چوں چرا کود پڑیں گے۔

اس کے بعد حضرت مقدادؓ کھڑے ہوئے اور کہا: ہم قوم موسیٰ جیسی بے وفا قوم نہیں جنہوں نے اپنے نبی سے کہا تھا کہ تم اور تمہارا رب جا کر لڑو ہم یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بائیں، آگے پیچھے آپﷺ کی حفاظت کریں گے، ہر وقت آپﷺ کے ساتھ رہیں گے، نبی کریم ﷺ بے حد خوش ہوئے اور بدر کے قریب ایک چشمے پر پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا، حضرت سعد بن معاذؓ کے مشورے سے آپ ﷺکیلئے عریش (چھپر) بنوایا گیا تاکہ آپ ﷺ وہاں سے جنگی صورتحال کو بچشم خود ملاحظہ فرما سکیں، آج کل اس جگہ ایک مسجد ہے، جسے ’’مسجد عریش ‘‘ کہا جاتا ہے۔

16 رمضان المبارک کو دونوں فوجیں پڑاؤ ڈال چکی تھیں، آپ ﷺ رات بھر بارگاہ ایزدی میں دعا و مناجات کرتے رہے، بالآخر وہ وقت آن پہنچا جب بدر کا میدان رزم حق و باطل کا استعارہ بن گیا، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جرات و شجاعت، بہادری و جانبازی، اللہ کی مدد اور نصرت اور نبی کریم ﷺ کی بہترین عسکری حکمت عملی کی مثال کے طور پر تاریخ عالم میں جانا جاتا ہے، 17 رمضان المبارک 2 ہجری کو نبی کریم ﷺ نے فوج کی صف بندی کی اور دست رحمت کو بارگاہ رحمت میں دراز کرتے ہوئے التجاء کی، اے پروردگار !جو آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اسے پورا فرما، آج اگر یہ چند مٹھی بھر جماعت مٹ گئی تو تاقیامت آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔

یہ صبر آزما امتحان تھا، مسلمانوں کے تلواروں کے نیچے ان کے قلب و جگر کے ٹکڑے اور بزرگ بھی آ رہے تھے، لیکن اسلام کی محبت رشتوں کی محبت پر غالب تھی، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی تلوار ان کے بیٹے پر بے نیام ہوئی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تلوار ان کے ماموں کے خون سے رنگین ہوئی، حضرت حذیفہؓ کی تلوار اپنے والد عتبہ پر تن گئی، قریش کے سپہ سالار عتبہ پر حضرت حمزہ اور حضرت علیؓ نے کاری ضرب لگائی، شیبہ کو حیدر کرارؓ کی ذوالفقار نے دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا، عبیدہ بن سعید کو حضرت زبیرؓ نے جہنم رسید کیا۔

دو انصاری بچوں حضرت معوذ اور معاذ رضی اللہ عنہما نے ابوجہل کے غرور کو زمین بوس کیا، عکرمہ بن ابی جہل نے حضرت معوذؓ پر تلوار سے حملہ کیا جس سے ان کا بازو کندھے سے لٹک گیا لیکن شیر دل مجاہد اسلام پھر بھی لڑتے رہے، جب لٹکا ہوا بازو دشمن پر حملے کرنے سے رکاوٹ بنا تو حضرت معوذ رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کو پاؤں کے نیچے رکھ کر ایک جھٹکے سے جھٹک دیا، ابوجہل کے مرنے سے قریش مکہ کی ہمت کافی حد تک پست ہوگئی، ان کے حوصلے جواب دینے لگے تھے لیکن ان کی ایک امید ابھی باقی تھی یعنی سردار امیہ بن خلف۔ پھر چشم فلک نے وہ نظارہ بھی کیا جب بلال پر ستم ڈھانے والے امیہ کے جسم کو نیزوں سے چھلنی کر دیا گیا، دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی۔

خدا کی طرف سے فرشتوں کی فوج اتری، کفر کے سرداروں کی لاشوں کے ڈھیر لگ گئے، ابوجہل، امیہ بن خلف ، عتبہ ، شیبہ ، ولید ، زمعہ بن اسود ، عاص بن ہشام، منبہ ابن الحجاج اور ابو البختری کے ناپاک وجود سے خدا کی زمین پاک ہوگئی، 70کفار مارے گئے، 70 کو قیدی بنا لیا گیا جبکہ باقی دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔

دوسری طرف 14 مسلمان جام شہادت نوش کر گئے، قیدیوں میں آپﷺ کے چچا عباسؓ، حضرت علیؓ کے بھائی عقیلؓ اور آپ ﷺ کے داماد ابو العاصؓ بھی تھے، اب یہ مسئلہ پیش آیا کہ ان قیدیوں کے ساتھ کیا کیا جائے؟ اس وقت قیدیوں سے جو وحشیانہ سلوک ہوتا ہے اس پر تاریخ کے اوراق نوحہ کناں ہیں لیکن آپ ﷺ نے ان سے ایسا رحم و کرم کا سلوک کیا کہ تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

قیدیوں کو صحابہ کرامؓ میں تقسیم کر دیا گیا اور ان سے حسن سلوک کا تاکیدی حکم بھی سنا دیا گیا، صحابہ کرامؓ بھی اپنے جان کے دشمنوں سے ایسے کریمانہ سلوک سے پیش آئے کہ خود کجھوروں پر گزارہ کر کے قیدی بھائیوں کو کھانا کھلاتے، ایک قیدی ابو عزیز کا بیان ہے کہ میں جس انصاری کے ہاں قید تھا وہ صبح و شام میرے سامنے کھانا رکھتے، روٹی اور سالن وغیرہ میری طرف رکھتے اور خود چند کھجوریں کھا کر گزارہ کر لیتے مجھ کو شرم آتی میں روٹی ان کے ہاتھ میں دے دیتا لیکن وہ اسے ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھے واپس کر دیتے۔

انہی قیدیوں میں ایک شخص سہیل ابن عمرو بھی تھا جو بلا کا خطیب تھا نبی کریم ﷺ کے خلاف تقریریں کر کے لوگوں میں آپ ﷺکی نفرت پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق رائے دی کہ اس کے نچلے دو دانت اکھاڑ دیئے جائیں تاکہ تقریر نہ کر سکے لیکن آپ ﷺ نے اسے منظور نہ فرمایا، یہاں تک کہ جن قیدیوں کے کپڑے خراب ہوگئے یا پھٹ گئے ان کو کپڑے دینے کا حکم دیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا قد قدرے لمبا تھا کسی اور کا کرتہ ان کے بدن پر پورا نہیں آتا تھا تو عبداللہ بن ابی منافق نے اپنا کرتہ دیا، احادیث میں آتا ہے کہ جب یہ منافق مرا تو آپ نے اس کے کفن کے لئے اپنا کرتہ دیا جو اسی احسان کا بدلہ تھا۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ سے مشورہ لیا کہ ان قیدیوں کا کیا کیا جائے؟ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں نے آپﷺ کی رسالت کو جھٹلایا، آپ ﷺکو اپنے گھر سے نکالا، ہمیں اجازت دیجیے کہ ہم ان کی گردنیں اڑا دیں، اس کے بعد حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے اس سے بھی زیادہ سخت رائے دی : یارسول اللہﷺ!ا ٓپ ایسے علاقے میں ہیں جہاں لکڑیاں بکثرت ہیں، آپﷺ جنگل میں آگ لگوا کر ان کو اس میں ڈال دیں، سب سے آخر میں مزاج شناس رسول سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا : یارسول اللہ ﷺ! یہ آپ کی قوم ہے، آپ کے گھر والے ہیں، انہیں زندگی کی مہلت دیں، توبہ کرائیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان کی توبہ کو قبول فرمائیں گے، میری رائے یہ ہے کہ ان سے کچھ فدیہ لے کر آزاد کر دیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر اٹھ کر چلے گئے، تھوڑی دیر بعد واپس تشریف لائے اور فرمایا: اے ابو بکر ! تمہاری مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے فرمایا تھا: جس نے میری اتباع کی وہ مجھ سے ہے، اے ابوبکرؓ آپ کی مثال حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے فرمایا تھا :اے اللہ اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر معاف کر دے تو تو بخشنے والا ہے، اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : اے عمر !تیری مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے فرعون کے لیے اللہ سے بددعا کی تھی اور اے عمر !تیری مثال حضرت نوح علیہ السلام جیسی ہے جنہوں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے یوں بددعا کی تھی : اے اللہ ! کافروں کوایک بھی گھر زمین پر باقی نہ چھوڑ( ان سب کو ہلاک کر دے )۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا : اس وقت تم ضرورت مند ہو اس لئے ان قیدیوں کو ( ان کی حیثیت کے مطابق) فدیہ وصول کر کے انہیں چھوڑ دو، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا جن کے پاس مال تھا ان کی حیثیت کے مطابق فدیہ لے کر چھوڑ دیا گیا اور جن کے پاس مال نہیں تھا ان سے کہا گیا کہ ہر قیدی مسلمانوں کے 10، 10 بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے ان کا یہی فدیہ ہے۔

عزوہ بدر کے واقعے نے یہ ثابت کر دیا کہ ثابت قدمی ، جذبہ جہاد ، شوق شہادت ، اطاعت امیر سے کڑے حالات کو اچھے حالات کی طرف موڑا جا سکتا ہے، محض دنیاوی وسائل، آلات جنگ اور سپاہیوں کی کثرت ہی جنگ جیتنے کے لئے کافی نہیں ہوتیں۔ مندرجہ بالا حقائق اور حالات و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے اب اقبال مرحوم کے اس شعر کو پڑھیے اور سر دھنیے!
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی

مولانا محمد الیاس گھمن معروف عالم دین، عالمی اتحاد اہل سنت و الجماعت کے امیر اور دو درجن سے زائد کتب کے مصنف ہیں۔