لاہور: (مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی) حضرت ابو امامہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میرے دوستوں میں بہت زیادہ قابل رشک میرے نزدیک وہ مؤمن ہے جو ہلکا پھلکا ہو (دنیا کے سازو سامان اور عیال کے لحاظ سے ہلکا پھلکا)۔
نماز میں اس کا بڑا حصہ ہو اور اپنے رب کی عبادت خوبی کے ساتھ کرتا ہو اور اللہ کی اطاعت و فرماں برداری اس کا شعار ہو اور یہ سب کچھ اخفا کے ساتھ خلوت میں کرتا ہو اور وہ چھپا ہوا گمنامی کی حالت میں ہو اور اس کی طرف انگلیوں سے اشارے نہ کئے جاتے ہیں اور اس کی روزی بھی بس کافی ہونے کے بقدر ہو اور وہ اس پر صابر اور قناعت کرنے والا ہو۔
پھر نبی کریمﷺ نے اپنے ہاتھ سے چٹکی بجائی اور فرمایا کہ جلدی سے اسے موت آگئی اس پر رونے والے بھی کم ہوں اور اس کی میراث بھی تھوڑی ہو(رواہ احمد و الترمذی وابن ماجہ)
اس حدیث میں نبی کریمﷺ نے رشک کے قابل اس مومن کو قرار دیا جس میں پہلی صفت یہ ہو کہ وہ ’’خفیف الحاذ‘‘ ہو، ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقات المفاتیح میں اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ای خفیف الحال الذی یکون قلیل المال و خفیف الظہر من العیال‘‘ یعنی ہلکا پھلکا ہونے سے مراد یہ ہے کہ مال و دولت کے اعتبار سے بھی ہلکا ہو اور اس پر کنبہ اور اولاد کا بھی زیادہ بوجھ نہ ہو‘‘
لیکن اس لفظ سے یہ مراد نہ لینا چاہیے کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچے کم ہونے چاہئیں، اس لئے کہ ترمذی میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ’’جو لوگ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے ان میں سے ایک وہ ہوگا جس کا کنبہ بڑا ہو اور اس کے اعمال تقویٰ سے آراستہ ہوں‘‘، لہٰذا ہلکا پھلکا ہونے سے مراد یہ ہوا کہ دنیاوی مشکلات اور مصروفیات جو کہ مال و اولاد سے متعلق ہیں ان کا بوجھ اس شخص پر زیادہ نہ ہو۔
قابل رشک بندہ کی ایک صفت یہ بھی بیان فرمائی کہ نماز کی عبادت سے بھی خوب حصہ ملا ہو، یعنی نماز میں مصروفیت زیادہ ہو، مزید یہ کہ وہ اللہ کی عبادت و اطاعت چھپا کر کرتا ہو، اتنا نیک ہونے کے باوجود یہ قابل رشک مومن اتنا غیر معروف اور گمنام کہ آتے جاتے کوئی ان کی طرف انگلی اٹھا کر نہیں کہتا کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں صاحب ہیں اس بندے کو اللہ نے روزی بھی بس اتنی دی جو کہ اسے کافی ہو جائے اور اس پر صبر کرتا ہے، اور قناعت اختیار کرتا ہے، پھر جب موت کا وقت آیا تو ایک دم رخصت، اپنے پیچھے نہ مال و دولت چھوڑا نہ جائیداد اور نہ دکانیں نہ مکانات کی تقسیم کے جھگڑے، اور ان کے مرنے پر ان پر رونے والے بھی کم۔
بلاشبہ اللہ کے ایسے نیک بندوں کی بڑی قابل رشک زندگی ہے اور الحمدللہ ہماری دنیا اب بھی اس قسم کی زندگی رکھنے والوں سے خالی نہیں، جب بھی ہمیں اس قسم کے برگزیدہ اللہ کے بندے نصیب ہو جائیں تو ہمیں ان کے ساتھ محبت اختیار کرنی چاہیے، ان کے پاس آنا جانا ان کی مجالس میں بیٹھنا چاہیے۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’کہ جب تم کسی بندہ کو اس حال میں دیکھو کہ اسے دنیا کے بارے میں زہد عطا کیا گیا ہے(دنیا کی طرف بے رغبت ہے) اور کم سخن (یعنی لغو اور فضول باتوں سے محفوظ) ہے تو تم اس کے قریب رہا کرو، کیونکہ جس بندے کا یہ حال ہوتا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکمت عطا ہوتی ہے‘‘۔
حکمت القاء ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حقیقتوں کو صحیح طور پر سمجھتا ہے اور اس کی زبان سے وہی باتیں نکلتی ہیں جو صحیح اور فائدہ مند ہوتی ہیں اور دانائی سے بھرپور ہوتی ہیں، اے اللہ ہمیں بھی اپنا قابل رشک بندہ بنا لے۔ (آمین)
مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی مہتمم جامعہ اشرفیہ لاہور اور چیئرمین قرآن بورڈ پنجاب ہیں۔