14 اگست یوم تجدید عہد

Published On 13 August,2025 08:00 pm

لاہور (ڈاکٹر زاہدہ خالد) 14 اگست کا دن ہر سال آتا ہے، یوم آزادی، یوم تجدید عہد اور بھی کئی ناموں سے پکارا جانے والا یہ دن 1947ء کے 14 اگست کی یاد میں زور و شور سے منایا جاتا ہے کیونکہ یہ دن بر صغیر پاک و ہند کے نقشے پر ابھرنے والی مسلم ریاست کے وجود میں آنے کا دن ہے۔

بحیثیت مسلم قوم بلا شبہ ہمیں اس مسلم ریاست کی سالگرہ پر خوشی کا اظہار کرنا چاہئے مگر کیا خوشی کا اظہار یہ ہے کہ مکانوں پر یا اپنی اپنی سواریوں پر پاکستان کا جھنڈا لگا دیا یا ہرے رنگ کے کپڑے اپنے بچوں کو پہنا دیئے یا پاکستانی جھنڈے کی طرز پر بنی ہوئی ٹو پیاں اُڑھا دیں۔

اپنی مصنوعات کو آزادی سیل کی آڑ میں مزید مہنگا کر کے بیچ دیا یا موٹر سائیکلوں کے سائیلنسر نکال کر شور مچا دیا، یہ سب کام کرنے والے بیشتر لوگ آزادی کے مفہوم یا تاریخ سے نا آشنا ہوتے ہیں۔

14 اگست کی چھٹی سب کو نہال کر دیتی ہے، لوگ اس کے ساتھ دو ایک چھٹیاں اور ملا کر اپنے اپنے شہروں کو سدھارتے ہیں جو نہیں جاتے وہ اپنے بیوی بچوں کو اپنی اپنی حیثیت کی سواریوں پر جھنڈے لگا کر باغوں اور پارکوں کا رُخ کرتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہےکہ ان میں سے بیشتر 14 اگست کے دن کی اہمیت سے آگاہ نہیں۔

اکثر 14 اگست کو محض چھٹی کا دن سمجھ کر گزارتے ہیں یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ کر بات ختم کر دیتے ہیں کہ اس دن پاکستان بنا تھا، کیسے بنا ؟ ملک کی تقسیم کیونکر ہوئی ؟ کیسے لوگوں نے اپنے گھر بار اور بچے قربان کیے ؟ یہ دن بحثیت قوم ہمارے لئے کس قدر اہم ہے؟ ان سب سوالوں کے جواب تو شاید کسی کو معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی اسے جاننے کی کوشش کرتا ہے۔

مجھے ایف اے کی ایک طالبہ کا پیپر یاد آرہا ہے کہ جب اُس نے اُردو کے پیپر میں اسی موضوع پر مضمون لکھتے ہوئے لکھا کہ علامہ اقبال رات کو سوئے انہوں نے خواب دیکھا کہ پاکستان بنانا چاہئے، صبح اٹھ کر انہوں نے قائد اعظم کو فون کر کے کہا کہ چلو مل کر پاکستان بناتے ہیں، دونوں نے کچھ اینٹیں وغیرہ اکٹھی کیں اور مل کر 14 اگست کو پاکستان بنایا۔

درج بالا واقعہ تفنن ِطبع سے زیادہ ایک گمبھیر فکر کا متقاضی ہے کہ جہاں 15 سال کی تعلیم کے بعد بھی ہماری نئی نسل کا اپنی تاریخ سے بے خبری کا یہ عالم ہے جہاں پر مطالعہ پاکستان ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل نصاب ہے، اس میں قصور کس کا ہے؟ والدین اور پھر اساتذہ جو کسی بھی انسان کے ذہن کی آبیاری میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ہماری دادی وقتاً فوقتاً ہمیں ہجرت کے واقعات سناتی رہتی تھیں کہ جب 14 اگست کو وہ قافلے کے ساتھ فیروز پور کے قریبی دیہات سے پاکستان کی طرف روانہ ہوئیں تو ان پر کیا کیا بیتا... کیسے ماؤں سے بچے چھنے؟ کیسے بہت سے بوڑھے سفر کی تاب نہ لا کر بھوک پیاس سے راستوں میں ہی دم توڑ گئے؟ کیسے انہوں نے اپنی متاع عزیز اپنے گھر کو الوداع کہا اور اپنی بیٹی کی قبر پر جاکر اسے اللہ کے حوالے کیا کہ اب وہ کسی اور دیس جا رہی ہیں۔

کیسے نوجوان لڑکیوں نے اپنی عزتیں بچانے کی خاطر کنوؤں میں چھلانگیں لگائیں؟ اور کیسے جب وہ قصور کے قریب گنڈا سنگھ والا پل گزر کر پاکستان میں داخل ہوئیں تو وہیں سجدہ ریز ہوگئیں، یہ وہ باتیں ہیں جو ہڈ بیتی ہیں۔

آج کتنے بزرگ اپنی نئی نسل کو پاکستان بننے کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہیں یا پاکستان کی تاریخ سے آگاہی دیتے ہیں؟ کتنے اساتذہ مطالعہ پاکستان پڑھاتے ہوئے تمام حالات و واقعات اپنے طلبا کو بتاتے ہیں کہ وہ کون سے حالات تھے جب کہ ایک الگ ملک کا وجود میں آنا ناگزیر تھا۔

یہی وجہ ہے کہ 14 اگست محض جھنڈیاں لگانے، ہری ٹوپیاں پہننے، آزادی سیل لگانے اور چھٹی منانے کا دن بن کر رہ گیا ہے اور اب تو اس حوالے سے رستوں پر لگے پوسٹرز پر بھی سیاست دانوں کی تصاویر اوپر اور علامہ اقبال و قائد اعظم کی تصاویر نیچے نظر آتی ہیں۔ 14 اگست کو جھنڈیوں کی صورت لگائے جانے والے پرچم کی بے حرمتی گلیوں اور کوڑے کے ڈھیر پر پڑے ہوئے یا پَیروں کے نیچے کچلے جانے کی شکل میں نظر آتی ہے۔

پرچم پوری اسلامی تاریخ میں ایک قوم کی شناخت، حرمت اور بہادری کا نشان خیال کیا جاتا رہا ہے، اُسے جھنڈیوں کی صورت آویزاں کر کے خاص کو عام بنانے کی کوشش ہے، خدا کے لیے ہمیں اپنے پرچم کی حرمت کے لئے اسے جھنڈیوں کی شکل میں لگانے سے گریز کرنا چاہئے۔

14 اگست سے بے خبری کا تجزیہ کرنے بیٹھیں تو پھر وہی بات کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی، ہمیں بحیثیت قوم اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ ہمارے کون سے اعمال و افعال ایسے ہیں جو ہمارے لیے بیرونی دنیا میں سبکی کا باعث ہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں اوپر سے لے کر نیچے تک سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔

کیا پڑھے لکھے اور کیا ان پڑھ معاشرتی برائیوں میں کسی نہ کسی صورت ملوث ہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم 14 اگست کے دن کو محض چھٹی یا جھنڈیوں تک محدود کر کے اگلے ہی دن اپنی تمام پرانی عادات و خصائل کو اپنا کر پھر سے پاک دھرتی پر ناپاک کام شروع نہ کر دیئے جائیں۔

14 اگست کو اپنے وطن کی محبت َ، حرمت، عزت، وقار کو بلند کرنے کے عہد کا دن تصورکیا جائے تو بیشک بڑے بڑے جھنڈے گھروں پر آویزاں نہ کئے جائیں بلکہ وطن کی عزت و وقار کے یہ جھنڈے دلوں کے اندر لگائے جائیں اور انہیں ایمان داری، محنت، لگن اور سچے جذبوں سے بلند رکھا جائے۔