اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) اسٹیبلشمنٹ کے ذمہ دار ذرائع نے واضح کیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کی مذاکراتی کاوشوں کیساتھ انکا کوئی تعلق ہے نہ ہی وہ کسی قسم کے بیک ڈور رابطوں کا حصہ ہیں۔
مقتدرہ اپنے اس فیصلے پر قائم ہے کہ ملک میں جاری سیاسی صورتحال سے دور رہا جائے اور اگر یہ انتشار ختم کرنا ہے تو سیاستدانوں نے خود کرنا ہے۔
جب اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی معاملات سے دور رہنے کا فیصلہ کیا تو نیوٹرل کے لفظ پر شدید تنقید کی گئی، اسٹیبلشمنٹ پر الزامات لگائے گئے مگر وقت گزرنے کے ساتھ اسٹیبلشمنٹ کا یہ فیصلہ اس وقت درست ثابت ہوا جب ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے سیاسی جماعتوں کے معاملات آئینی طریقے سے سلجھانے کی کوشش کی تو آگ کی چنگاریاں اعلیٰ عدلیہ تک پہنچ گئیں۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے عدلیہ کیساتھ کئے گئے سلوک کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل رہنے کے بیانیے کو تقویت ملی اور اسٹیبلشمنٹ اپنے اس فیصلے پر مزید پُر اعتماد ہو چکی ہے، سیاسی معاملات کو سلجھانے کا کام سیاسی قیادت کا ہے، اسٹیبلشمنٹ اس صورتحال سے دور رہے گی، یہی وجہ ہے کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے قومی اسمبلی کے ان کیمر ااجلاس میں شرکت کے دوران واضح پیغام دیا کہ موجودہ بحران کا آئینی اور سیاسی حل حکومت کو ہی نکالنا ہے فوج اپنا آئینی کردار ادا کرتی رہے گی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ قومی مذاکرات اور اتفاق رائے کیلئے پیپلز پارٹی کی جانب سے تین رکنی مذاکراتی کمیٹی بنانا ،جماعت اسلامی کی جانب سے آل پارٹیز کانفرنس بلانا، وزیر اعظم اور عمران خان کیساتھ سراج الحق کی ملاقاتیں، تحریک انصاف کی جانب سے جماعت اسلامی کیساتھ بات چیت کیلئے تین رکنی کمیٹی بنانا ان جماعتوں کے اپنے اقدامات ہیں جو انکی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہیں، اسٹیبلشمنٹ کا ان اقدامات سے کوئی تعلق نہیں ہے، پاکستان تحریک انصاف ہر صورت میں پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات چاہتی ہے مگر حکومت کسی طور بھی 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کیلئے تیار نہیں ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ذرائع یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں اگر وہ انتخابات کی تاریخ کے معاملے پر سیاسی جماعتوں کو ایک میز پر بٹھانے کیلئے کوششیں کریں تو ایک فریق راضی دوسرا ناراض ہو جائے گا جسکا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
سیاستدانوں کو اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی معاملات سے دور رہنے کے فیصلے کو سراہنا چاہیے اور اس معاملے کا حل خود تلاش کرنا چا ہیے۔
دنیا نیوز کے رابطہ کرنے پر تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے ذرائع نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل شروع ہونا انکے اپنے اقدامات ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کا اس معاملے کیساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔