لاہور: (خصوصی رپورٹ: محمد اشفاق) نواز شریف 21 اکتوبر کو وطن واپس آرہے ہیں، نوازشریف لاہور میں کسی مقدمے میں اشتہاری نہیں ہیں جبکہ اسلام آباد میں وہ مجموعی طور پر تین مقدمات میں اشتہاری قرار دئیے جاچکے ہیں۔
28 جولائی 2017 سے اکتوبر 2023 تک نواز شریف کےخلاف مقدمات جتنی تیزی سے بنے اتنی ہی تیزی میں ٹرائل کے دوران شواہد نہ ہونے پر نوازشریف بری ہوتے گئے، وطن واپسی سے قبل نوازشریف کی حفاظتی ضمانت کی درخواست دائر کی جائے گی جس کے بعد نواز شریف کو ائیر پورٹ سے گرفتار نہیں کیا جاسکے گا۔
28جولائی 2017 کو پاناما پیپرز سکینڈل میں سپریم کورٹ نے حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو نااہل قرار دیا اور شریف خاندان کے خلاف نیب کو تحقیقات کا حکم دیا، ساتھ ہی احتساب عدالت کو حکم دیا تھا کہ نیب ریفرنسز کو 6 ماہ میں نمٹایا جائے، سپریم کورٹ کے جج جسٹس اعجاز الاحسن کو ان کیسز میں نگران جج مقرر کردیا تھا جس کے بعد عدالتوں میں کیسز پر کاروائی کا آغا زہوگیا، اس وقت مجموعی طور پر نواز شریف اسلام آباد میں تین کیسز میں اشتہاری ہیں پہلا کیس توشہ خانہ کا ہے جس میں پیش نہ ہونے پراسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف کو 8 ستمبر2020 کو اشتہاری قرار دیا تھا جبکہ ایوان فیلد ریفرنس میں احتساب عدالت نے 6 جولائی 2018 کو نواز شریف کو 10 سال، مریم نواز کو 7اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو 1 سال قید کی سزا سنادی تھی۔
اس دوران نوازشریف اپنی اہلیہ اور مریم نواز اپنی والدہ کو بیمار چھوڑ کر گرفتاری دینے کے لیے وطن واپس آئے اور 13 جولائی 2018 کو ائیر پورٹ سے گرفتار کر کے انہیں جیل منتقل کیا گیا جس کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے 19 ستمبر 2018 کو سزائیں معطل کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ 14 جنوری 2019 کو نیب کی سزا معطلی کے فیصلے کے خلاف اپیل پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس گلزار احمد، جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم خان پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ نے نیب کی اپیلوں کو خارج کر دیا۔
دوسری جانب 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 10سال قید کی سزا سنائی گئی جس کے بعد نواز شریف کو جیل منتقل کر دیا گیا، فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کو مقدمہ سے بری کردیا گیا، 31 اکتوبر 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے میڈیکل گرؤانڈ پر نواز شریف کی دونوں کیسز میں سزائیں معطل کر کے 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک علاج کی اجازت دی اور ساتھ فیصلے میں لکھ دیا کہ اگر نواز شریف کی صحت بہتر نہ ہو تو فوجداری قانون کی دفعہ 104 کے تحت درخواست گزار یعنی نواز شریف پنجاب حکومت سے ضمانت میں توسیع کروا سکتے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ سے سزائیں معطل ہونے کے بعد نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے لاہورہائیکورٹ سے رجوع کیا گیا، جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے میڈیکل گرؤانڈ پر 16 نومبر2019 کو نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست منظور کی اور انہیں بیرون ملک علاج کی اجازت دیدی اور اس حوالے سے ان کے بھائی شہباز شریف نے عدالت میں اشٹام پیپر پر گارنٹی دی جس کے بعد نومبر 2019 میں نوازشریف لندن پہنچ گئے اور اس دوران صرف ایک مرتبہ لاہور ہائیکورٹ میں نواز شریف کا کیس 20 جنوری 2020 کو جسٹس طارق عباسی اور جسٹس چوہدری مشتاق پر مشتمل بنچ کے روبرو دوبارہ سماعت کے لیے مقرر ہوا تو ایک ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور دو ڈپٹی اٹارنی جنرل جس میں ایک ڈپٹی اٹارنی جنرل اس وقت بھی موجود ہیں اسد باجوہ سمیت دیگر نوازشریف کے خلاف پیش ہوئے لیکن عدالت کے سوالات کے جوابات نہ دے سکے اور مزید مہلت مانگ لی جس کے بعد عدالت نے کیس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا۔
اس دوران تحریک انصاف کی حکومت نواز شریف کو مفرور تو قرار دیتی رہی لیکن نواز شریف کی ضمانت خارج کروانے کے لیے کوئی درخواست عدالت میں دائر نہیں کی۔
دوسری جانب 4 ہفتوں بعد نواز شریف جب وطن واپس نہ آئے تو اسلام آباد ہائیکورٹ نے عدم پیروی کی بنیاد پر نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف اور نیب کی فلیگ شپ کیس میں بریت کے خلاف دونوں اپیلیں خارج کردیں اور نواز شریف کو اشتہاری قرار دیا اور فیصلے میں کہا کہ نواز شریف واپس آئیں تو اپیلیں بحال ہو جائیں گی جبکہ 19 نومبر 2019 سے لیکر یکم اکتوبر 2023 تک مجموعی طور پر 12 مرتبہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس لاہور ہائیکورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار کو جمع کروائی گئیں۔
نوازشریف کی پہلی میڈیکل رپورٹ 13 دسمبر 2019 کو جمع کروائی گئی، دوسری رپورٹ 15 جنوری 2020، تیسری رپورٹ 15 فروری 2020، چوتھی رپورٹ 24 مارچ 2020، پانچویں رپورٹ 20 مئی 2020، چھٹی رپورٹ 28 جولائی 2020، ساتویں رپورٹ 15 ستمبر 2020 کو جمع کروائی گئی جبکہ اس دوران کورونا وبا کے باعث آٹھویں، نویں، دسویں اور گیارویں رپورٹ یکم فروری 2022 کو اکٹھی جمع کروائی گئیں۔
12ویں رپورٹ 6 اکتوبر2023 کو جمع کروائی گئی جس میں کہا گیا کہ نوازشریف کی زندگی اب خطرے سے خالی ہے لیکن ان کی صحت کا فالو اپ مسلسل جاری رہنا چاہیے جبکہ لاہور میں چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی 25 اکتوبر 2019 کو لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے میڈیکل گرؤانڈ پر درخواست ضمانت منظور کر کے رہا کرنے کا حکم دیدیا تھا۔
چوہدری شوگر ملز کیس میں بھی آج تک نیب نے ریفرنس دائر نہیں کیا صرف انکوائری کے دوران نواز شریف کو گرفتار کیا گیا تھا اور 24 جون 2023 کو پلاٹ الاٹنمنٹ کیس میں لاہور کی احتساب عدالت نے نوازشریف سمیت دیگر کو مقدمہ سے بری کردیا تھا۔
لاہور کی احتساب عدالت نے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کی پلاٹ الاٹمنٹ کيس ميں بريت کا تفصیلی فيصلہ جاری کيا جس میں کہا گیا ہے کہ نوازشریف کو اشتہاری قرار دینے کی کارروائی قانون کے مطابق نہیں تھی اور ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ نوازشریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔
تفصیلی فیصلے میں حکم دیا گیا تھا کہ عدالت تین بار منتخب ہونے والے وزیراعظم نوازشریف کو بری کرنے کا حکم دیتی ہے، سابق حکومت نے نیب کو نواز شریف کا مستبقل تباہ کرنے کے لیے ریفرنس بنانے پر مجبور کیا جبکہ ان فیصلوں کے بعد لاہور کی عدالتوں میں ایسا کوئی مقدمہ نہیں جہاں پر نواز شریف نے پیش ہونا ہو جبکہ 21 اکتوبر سے پہلے نواز شریف کی جانب سے لاہور ہائیکورٹ میں متفرق درخواست دائر کی جائے گی جہاں پر نواز شریف کی صحت یابی سے متعلق عدالت کو آگاہ کیا جائے گا جبکہ نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کیلئے لاہور ہائیکورٹ یا اسلام آباد ہائیکورٹ میں دونوں میں سے ایک جگہ درخواست دائر کی جائے گی اس حوالے سے حتمی فیصلہ 18 اکتوبر کو ہو گا۔