لاہور: (فہیم حیدر) ’باکمال لوگ، لاجواب سروس‘ کے سلوگن کے ساتھ پاکستان کی قومی ایئرلائن، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) طویل عرصے تک مسافروں کو بہترین خدمات فراہم کرتی رہی ہے مگر گزشتہ کچھ عرصے سے یہ ہر شعبے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے، اس وقت پی آئی اے اپنی تاریخ کے بدترین مالی بحران سے گزر رہی ہے۔
لیز اور قرضوں پر سود کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی قومی ایئرلائن کے ساتھ کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے اب تعاون کرنے سے گریزاں ہیں، دوسری جانب بروقت مرمت نہ ہونے کی وجہ سے 11 جہاز گراونڈ کر دئیے گئے ہیں،31 جہازوں پر مشتمل پی آئی اے کا فلیٹ اب محض 18 طیاروں تک محدود ہو گیا ہے۔
فلائٹ شیڈول متاثر
پی ایس او کے ساتھ ایندھن مسائل حل نہ ہونے کی وجہ سے ہر روز فلائٹ شیڈول متاثر ہونا معمول بن چکا ہے جس کے باعث ادارے کو تو نقصان ہو ہی رہا ہے ساتھ ہی مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا ادارے پر سے اعتماد بھی اٹھتا جا رہا ہے۔
نجکاری کی بازگشت
اطلاعات کے مطابق پی آئی اے نے سعودی عرب کو 4 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کرنی ہے، 30 لاکھ ڈالر استنبول گراؤنڈ ایئر پورٹ کے واجب الادا ہیں جبکہ اڑھائی کروڑ ڈالر سے زائد رقم لیز پر حاصل کردہ طیاروں کی ادا کرنی ہے، اس کا ماہانہ خسارہ 12 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے جبکہ مجموعی خسارہ 112 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔
خدشہ ہے کہ اسے بند کرنا پڑے گا، علاج تجویز ہوا ہے کہ اس کی نجکاری کر دی جائے، سو آج کل اس کی نجکاری کا منصوبہ زیر غور ہے، یہ مالی بحران چند ہفتوں یا مہینوں کا قصہ نہیں ہے، گزشتہ کئی برسوں سے پی آئی اے قومی خزانے پر بوجھ بنی ہوئی ہے، اس کا وجود برقرار رکھنے کے لئے حکومت کو اربوں روپے مہیا کرنا پڑتے ہیں۔
پی آئی اے کسی زمانے میں ہمارا فخر ہوا کرتی تھی، آج یہ عبرت اور زوال کا نشان بن چکی ہے، امارات (Emirates) ایئر لائن کا شمار دنیا کی بہترین ایئر لائنوں میں ہوتا ہے، برسوں پہلے ایمریٹس ایئر لائن نے پی آئی اے سے دو طیارے لیز پر لے کر کام کا آغاز کیا تھا۔
پی آئی اے کے پائلٹوں اور انجینئروں نے ایمریٹس کے پائلٹوں اور دیگر ملازمین کو تربیت فراہم کی تھی، آج ایمریٹس ایئر لائن کا دنیا بھر میں ڈنکا بجتا ہے، یہ کئی سو طیاروں کی مالک ہے، اس نے گزشتہ برس 3 ارب امریکی ڈالر کا منافع کمایا ہے جبکہ پی آئی اے ایک سفید ہاتھی بن چکی ہے، کما نا تو خاک حکومت کو اپنی جیب سے اس کو اربوں روپے دینا پڑتے ہیں۔
جولائی 2020ء میں قومی ایئر لائن پر یورپ میں پابندی لگنے کی وجہ سے اربوں روپے نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یورپ اور برطانیہ جانے والی پروازوں پر بندش کی وجہ سے 187 ارب کا نقصان ہو چکا ہے جس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
ملازمین تنخواہوں سے محروم
دوسری جانب مالی مشکلات کے باعث پی آئی اے کے ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہوسکی، مہنگائی کے باعث تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے پی آئی اے ملازمین سخت پریشانی کا شکار ہیں، ایف بی آر کی طرف سے قومی ایئرلائن کے اکاؤنٹس منجمد کرنے سے پی آئی اے کو الگ مشکلات کا سامنا ہے۔
پی آئی اے کی تنظیم نو ہوگی یا نہیں یا اس کو حکومتی مدد ملنی چاہیے یا نہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ایئرلائن کے ساتھ کام کرنے والوں میں ابہام پیدا کر رہے ہیں، پی آئی اے کی تنظیم نو کے منصوبے کا اعلان تو گزشتہ حکومت نے کیا مگر اس منصوبے کو اب تک تکمیل تک نہیں پہنچایا جا سکا۔
ادائیگیوں میں تاخیر
حکومت کی جانب سے پی آئی اے کو ادائیگیوں میں بھی تاخیر کا سلسلہ جاری ہے جس کی وجہ سے قومی ایئرلائن اپنی اشد ضروری ادائیگیوں سے بھی قاصر ہے، بین الاقوامی ادائیگیوں میں 720 ارب روپے سے زائد کی رقوم واجب الادا ہیں جس میں جہازوں اور انجن کے لیز کی رقم، انٹرنیشنل ہینڈلنگ، ایئرپورٹ چارجز اور قرضوں پر سود کی ادائیگیاں شامل ہیں۔
ملائیشیا اور انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک میں قومی ایئرلائن کے جہازوں کو عدم ادائیگیوں کی وجہ سے روکا جاتا رہا ہے، اس وقت بھی پاکستان کے دو جہاز انڈونیشیا میں موجود ہیں جن کے معاملات طے کرنے کے لیے پی آئی اے کی سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو انڈونیشیا جا کر پھنسے جہازوں کو واپس وطن لانے کے لیے اقدمات کرے گی۔
پی آئی اے اور پی ایس او تنازع
پی آئی اے اور پی ایس او دونوں حکومتی تحویل میں چلنے والے ادارے ہیں دونوں کے درمیان ایندھن کی ادائیگیوں کے سلسلے میں تنازع کا خمیازہ عام مسافر برداشت کر رہے ہیں تاہم اس معاملے میں قصور پی آئی اے کا ہے جو پی ایس او کو ایندھن کی ادائیگی نہیں کر پا رہی، پی آئی اے نے 26 ارب پی ایس او کو دینے تھے جسے حکومت کی جانب سے مداخلت کے بعد منجمد کر دیا گیا۔
یہ طے ہوا تھا کہ روزانہ کی بنیادوں پر ادائیگی کی جائے گی تاہم اس سلسلے میں بھی اب پی آئی اے کے ذمے واجبات ڈیڑھ ارب روپے سے زائد ہو گئے ہیں۔
تنظیم نو
اب ذرائع کا کہنا ہے کہ تنظیم نو کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے پی آئی اے کو دو کمپنیوں میں تقسیم کرنے کیلئے اقدامات شروع کر دیئے گئے ہیں، پی آئی اے کی نجکاری کیلئے ضروری بیلنس شیٹ ری سٹرکچرنگ کیلئے مالی مشیرکی خدمات بھی طلب کر لی گئیں۔
پی آئی اے کی مالی تنظیم نو کیلئے مختلف منصوبوں پر مالی مشیر سے تجاویز لی جائیں گی، پی آئی اے کو دو کمپنیوں میں تقسیم کرنے یا پی آئی اے کو ایک ہولڈنگ کمپنی کے ماتحت ادارہ بنانے کی تجاویزشامل ہیں۔
ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے تمام اثاثے بشمول جائیدادیں، تمام قرضہ جات، جہاز اور ملازمین نئی کمپنی کو منتقل کر دئیے جائیں گے۔