لاہور: (میاں عمر منظور) دنیا بھر میں موسمی تبدیلیاں، زرعی معیشت اور مویشی پال کسانوں کیلئے خطرے کی گھنٹی بن چکی ہیں، پاکستان جیسے زرعی ملک میں مویشی پالنا لاکھوں افراد کا ذریعہ معاش ہے تاہم بدلتے موسموں نے اس شعبے کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق پاکستان میں مویشی پالنے کا شعبہ جی ڈی پی کا تقریباً 11.7 فیصد ہے اور زراعت کے شعبے کا 60 فیصد حصہ مویشیوں سے جڑا ہوا ہے، تاہم موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث درجہ حرارت میں اضافے، بارشوں کے بے وقت اور شدید پیٹرن، خشک سالی اور چارے کی قلت جیسے مسائل نے مویشیوں کی صحت، پیداوار اور افزائش نسل پر منفی اثرات ڈالے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق 2022ء میں جنوبی پنجاب اور سندھ میں شدید گرمی کی لہر کے دوران مویشیوں میں ہلاکتوں کی شرح میں 20 فیصد اضافہ دیکھا گیا، اسی طرح بارشوں اور سیلاب کے دوران سیکڑوں جانور ہلاک ہوگئے جبکہ ہزاروں بیمار پڑے۔
گرمی کے باعث دودھ دینے والی گایوں اور بھینسوں کی پیداوار میں کمی واقع ہوتی ہے، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے مطابق درجہ حرارت میں ہر 1 ڈگری سیلسیس اضافے سے دودھ کی پیداوار میں 3 سے 5 فیصد کمی آتی ہے، موسمی تبدیلی سے پیدا ہونے والی نئی بیماریاں، جیسے لمپی سکن بیماری، مویشیوں کیلئے جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں، ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے حکومت کو موسمیاتی پالیسیوں میں مویشیوں کے تحفظ کو شامل کرنا ہوگا اور کسانوں کو بروقت آگاہی، ویکسی نیشن اور چارہ فراہم کرنے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موسمیاتی تغیرات پاکستان میں ہر جاندار کو متاثر کر رہے ہیں، درخت کم ہو رہے ہیں، گلیشیئر پگھل رہے ہیں، بارشیں اور سیلاب زیادہ شدت اختیار کر رہے ہیں اور آبی ذخائر کم ہونے کی وجہ سے یہ پانی ضائع ہورہا ہے اور سال کا اکثر وقت کسان اور جانور پانی کی کمی کا شکار ہونے لگے ہیں۔
تھر میں پچھلے کئی سال سے موسم گرما میں قحط سالی کے باعث مرنے والے موروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، پانی کے پرندے بھی یہاں سے ہجرت کر رہے ہیں، جانوروں کی نسلیں معدوم ہو رہی ہیں، یہ سب ایکو سسٹم کی تباہی کے اشارے ہیں جو بالآخر انسانوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
موسمیاتی تبدیلی پاکستان میں جنگلی حیات اور مویشیوں کو خاص طور پر متاثر کرتی ہے، اس کے نتیجے میں ان کے مسکنوں کا نقصان پہنچ رہا ہے، خوراک کی دستیابی میں کمی ہو رہی ہے، بیماریوں کے پھیلاؤ میں اضافہ ہو رہا اور بعض انواع کی معدومیت کے خطرات بھی پیدا ہو چکے ہیں، یہ اثرات جنگلی جانوروں اور پالتو مویشیوں کو متاثر کرتے ہیں جس کی وجہ سے پیداواری صلاحیت، افزائش نسل اور جانوروں کی صحت میں کمی واقع ہوتی ہے، آب و ہوا کی تبدیلی قدرتی رہائش گاہوں کے نقصان اور جنگلی حیات کی بقا کیلئے اہم جنگلات اوردلدلی علاقوں اور گھاس کے میدانوں کا نقصان کرتی ہے۔
بارش کے پیٹرن میں تبدیلی اور درجہ حرارت میں اضافہ پودوں کی نشوؤنما کو متاثر کرتا ہے اور جانوروں کیلئے خوراک کی دستیابی کو کم کر سکتی ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں رینج لینڈز پہلے ہی دباؤ کا شکار ہیں، آب و ہوا میں تبدیلیاں پرندوں اور دیگر جانوروں کی نقل مکانی کے راستوں میں خلل ڈال سکتی ہیں جس سے ان کی خوراک اور افزائش نسل کے ٹھکانے تلاش کرنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے، زیادہ درجۂ حرارت اور بارش کے موسموں میں تبدیلی جانوروں میں بیماریوں کے پھیلاؤ کیلئے سازگار حالات پیدا کر سکتی ہے جس سے جنگلی حیات کی آبادی متاثر ہوتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بدلتی ہوئی آب و ہوا کی وجہ سے کچھ جانوروں کی نسلیں ممکن ہے معدوم ہو جائیں، گرمی کا دباؤ، خوراک کی دستیابی میں کمی اور بیماریوں سے مویشیوں میں دودھ اور گوشت کی پیداوار کم ہو سکتی ہے، موسمیاتی تبدیلی مویشیوں کی تولیدی کارکردگی کو بھی متاثر کر سکتی ہے، سیلاب اور خشک سالی جیسے شدید موسمی واقعات پسماندہ علاقوں میںبطور خاص مویشیوں کیلئے خطرہ بنتے ہیں، گرمی کی شدت، پانی کی کمی اور بیماریوں کے پھیلنے سے جانوروں کی صحت متاثر ہوتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی مویشیوں اور دیگر شعبوں کے میں پانی اور زمینی وسائل کیلئے مسابقت کو بڑھا سکتی ہے، ایسے میں ماہرین کو موسمیاتی تغیر برداشت کرنے والے مویشیوں کی نسلیں تیار کرنا ہوں گی، معروف جریدے ’’سائنس ڈائریکٹ (Science Direct) نے رپورٹ کیا ہے کہ محققین مویشیوں کی نئی نسلوں کو تیار کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں جو گرمی کے دباؤ اور خشک سالی کو زیادہ برداشت کرتی ہیں، لیکن جنگلی جانوروں کی معدومیت کا کیا کیا جائے؟
آبپاشی کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور پانی کے تحفظ کے اقدامات سے پانی کی کمی کو دور کرنے اور مویشیوں کو خشک سالی سے بچانے میں مدد مل سکتی ہے، کسانوں کو اپنی فصلوں اور لائیو سٹاک کے نظام کو متنوع بنانے کی ترغیب دینے سے انہیں بدلتے ہوئے موسمی حالات کے مطابق ڈھالنے میں مدد مل سکتی ہے اور انتہائی موسمی حالات سے ان کے خطرے کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
کسانوں اور دیگر سٹیک ہولڈرز کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور موافقت کے اقدامات کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا انہیں باخبر فیصلے کرنے میں مدد دے سکتا ہے، جہاں دوسرے شعبوں میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جاتی ہے وہاں پانی ذخیرہ کرنے کی سہولیات پر سرمایہ کاری پہ بھی توجہ دی جانی چاہیے کیونکہ اس بنیادی ڈھانچے کی تعمیر سے پانی کے وسائل کو زیادہ مؤثر طریقے سے منظم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
میاں عمر منظور معروف لکھاری ہیں، ان کے مضامین ملک کے مؤقر جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔