انتخابات کا انعقاد اور لیول پلینگ فیلڈ کے چبھتے سوالات

Published On 02 November,2023 11:28 am

اسلام آباد: (عدیل وڑائچ) صدر عارف علوی سمیت پاکستانیوں کی بڑی تعداد اَب بھی سمجھتی ہے کہ جنوری 2024ء میں انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے، انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے غیر یقینی کی بہت سی وجوہات ہیں، اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے صدر مملکت کے اس بیان پر کہ انہیں جنوری میں الیکشن کے انعقاد پر یقین نہیں، وضاحت جاری کی جا چکی ہے کہ انتخابات میں تاخیر نہیں ہوگی۔

الیکشن کمیشن نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے پر زور تردید کی جاتی ہے کہ الیکشن ملتوی ہونے کا کوئی امکان ہے، مگر یہ تردید بھی ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مکمل یقین دلانے میں مؤثر دکھائی نہیں دیتی، جب یہ سوال ہوتا ہے کہ انتخابات جنوری کے آخری ہفتے میں ہونے ہیں تو الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال تاریخ کیوں نہیں دی گئی، اس پر کمیشن کہتا ہے کہ انتخابات کے انعقاد کیلئے ایکشن پلان کے مطابق تمام تیاریاں مکمل ہیں، رواں ماہ کے آخر میں مکمل ہونے والی حلقہ بندیوں کی حتمی اشاعت کے بعد شیڈول کا اعلان کر دیا جائے گا۔ مگر سبھی سیاسی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا فوری اعلان کرے۔

ناقدین کہتے ہیں کہ وہ الیکشن کمیشن جسے عام انتخابات کی تاریخ کا اختیار صدر مملکت کی بجائے خود رکھنے کا اشتیاق تھا اور قانون سازی کے بعد یہ اختیار الیکشن کمیشن کو مل بھی گیا مگر سیاسی سٹیک ہولڈرز کے مطالبے کے باوجود تاریخ کا اعلان کیوں نہیں کیا جا رہا؟ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ الیکشن شیڈول کا اعلان حلقہ بندیوں کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد ہی ہو سکتا ہے، مگر انتخابات کی تاریخ کا اعلان اس مرحلے پر کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ ملک کو قیاس آرائیوں اور ہیجانی کیفیت سے بچانے کیلئے یہ اعلان اب تک ہو جانا چاہیے تھا۔

صرف یہی نہیں، نگران حکومت خصوصاً نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو بھی کئی مرتبہ انہی سوالات کا سامنا کرنا پڑا اور ہر مرتبہ وہ انتخابات کی تاریخ سے متعلق گیند الیکشن کمیشن کی کورٹ میں پھینک دیتے ہیں، نگران وزیر اعظم کا یہ یقین دلانا کہ انتخابات مقررہ وقت پر ہوں گے، الیکشن کی تاریخ کے بارے میں غیر یقینی صورتحال ہونے کے باعث عوام کو قائل کرنے میں مؤثر دکھائی نہیں دیتا۔

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کو صرف انتخابات کی تاریخ سے متعلق ہی نہیں لیول پلینگ فیلڈ سے متعلق سوالات بھی ستا رہے ہیں، ہر دوسرے ٹاک شو یا پریس کانفرنس میں انتخابات کے انعقاد اور لیول پلینگ فیلڈ سے متعلق سوال ضرور ہوتا ہے، انوار الحق کاکڑ کو اس سوال پر مطمئن کرنے کیلئے کبھی یہ کہنا پڑا کہ کیا آپ کو 2018ء والی لیول پلینگ فیلڈ یاد ہے تو کبھی یہ کہ پی ٹی آئی کے امیدوار الیکشن لڑیں گے، اس سے زیادہ لیول پلینگ فیلڈ کی کیا بات کروں، مگر حقیقت یہ ہے کہ سوائے ایک جماعت کے کوئی بھی لیول پلینگ فیلڈ کے معاملے پر مطمئن دکھائی نہیں دیتی۔

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز میں نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی طلبا سے بات چیت کے دوران تلخ اور تندو تیز سوالات نے ایوان اقتدار کو زمینی صورتحال سے بخوبی آگاہ کیا، ملک کے نوجوانوں کی پاکستانی سیاست اور اس کے محرکات سے متعلق اس قدر آگاہی واقعی حیران کن اور دلچسپ تھی، طلبا نے نگران وزیر اعظم سے انتخابات کی تاریخ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کے التوا، انتخابات کی شفافیت سمیت ایسے تیکھے سوالات کئے کہ ان کے جوابات سے زیادہ ان سوالات کی اہمیت اور اثر نے کئی روز تک میڈیا اور سوشل میڈیا پر غلبہ پائے رکھا۔

اس سیشن نے ایک بات واضح کر دی کہ پاکستانی انتخابی فہرستوں کا بڑا حصہ یعنی یوتھ موجودہ انتخابی نظام اور اس کی شفافیت سے متعلق کیا خیالات اور خدشات رکھتا ہے، مستقبل میں لیول پلینگ فیلڈ کے سوالات کو نظر انداز کر کے آگے بڑھنے کی صورت میں ملک میں سیاسی ہیجان اور غیر یقینی صورتحال کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔

لیول پلینگ فیلڈ کے سوالات سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وطن واپسی پر دکھائی دینے والے منظر نامے نے پیدا کئے، میاں نواز شریف کو چار سال بعد وطن واپسی پر ملنے والا پروٹوکول اپنی جگہ مگر عدالتی معاملات میں پراسیکیوشن کی جانب سے ریلیف پر عدالتوں نے بھی حیرانی کا اظہار کیا، میاں نواز شریف کی اپیلوں کی بحالی کی درخواستوں پر سماعت کے دوران جج صاحبان کے ریمارکس تو تھے ہی مگر منگل کے روز جاری ہونے والے تحریری فیصلے میں بھی اس بات کی توثیق ہو گئی کہ( ن) لیگی قائد کو ریلیف ملنے کی وجہ صرف نیب ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے تحریری حکمنامے کے مطابق میاں نواز شریف کی حفاظتی ضمانت کی پیٹیشنز دائر کرنے کیلئے مختار نامہ قانون کے مطابق نہیں تھا جس کے باعث ان پٹیشنز کو نا قابل سماعت قرار دیا گیا مگر نیب کے واضح اور غیر مبہم مؤقف کے باعث انہیں حفاظتی ضمانت دی گئی، نیب کا طرزِ عمل ظاہر کر رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں عدالتوں میں چلنے والے کرپشن کیسز یا احتساب عدالتوں کے فیصلوں کیخلاف اپیلوں میں استغاثہ یعنی نیب کیسے ان کیسز کو لے کر چلے گا۔

حکومت کسی بھی جماعت کی ہو ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ نیب کا ادارہ حکومت کے ماتحت یا زیر اثر نہیں مگر حقائق تو یہی بتاتے ہیں کہ احتساب بیورو اور حکومتِ وقت کی احتساب سے متعلق ترجیحات ہمیشہ ایک جیسی رہی ہیں، ایسے میں اگر نیب یا وفاقی حکومت یہ تاثر زائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو انتخابات سے قبل اور بعد لیول پلینگ فیلڈ سے متعلق سوالات اٹھنا فطری ہوگا، دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے انعقاد پر شکوک و شبہات اور خدشات اپنی جگہ مگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کو انتخابات ہوتے نظر آرہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ (ن) لیگ نے عام انتخابات کیلئے درخواستوں کی وصولی یکم نومبر سے شروع کر دی ہے، (ن) لیگ کی جانب سے اپنے امیدوار وں کو ہدایت کی گئی ہے کہ ٹکٹ کے خواہشمند ارکان 10 نومبر تک فارم فیس کے ساتھ جمع کروا دیں، (ن) لیگ نے پارٹی الیکشن سیل اور پارلیمانی بورڈز بھی تشکیل دے دیئے ہیں، انتخابات سے متعلق الیکشن کمیشن نے بھی حلقہ بندیوں پر اعتراضات کی سماعت شروع کر دی ہے، آئندہ ایک ماہ میں حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد انتخابی شیڈول آنے پر ہی کسی حد تک غیر یقینی صورتحال میں کمی ہو سکے گی۔